• news

اپنوں کو بچانے اور وزیراعظم کو گھیرنے والے، اپوزیشن کے بدنیتی پر مبنی ٹی او آر مسترد کر تے ہیں، حکومت: مذاکرات کی پیشکش

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اپوزیشن کو پانامہ پیپرز پر مجوزہ عدالتی کمشن کے ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آر) پر بات چیت کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اپوزیشن ٹی او آر پر بات چیت کے لئے حکومتی کمیٹی کے ساتھ بیٹھے کچھ لو اور کچھ دو کے تحت متفقہ ٹی او آرز بنائے جائیں، اپوزیشن سچ سامنے آنے میں دیواریں اور رکاوٹیں نہ کھڑی کرے، اپوزیشن کے ٹی او آرز کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ صرف ’’اینٹی نواز شریف ٹی او آر ہیں موجودہ ٹی او آر کے ذریعے اپوزیشن اپنوں کو بچانا اور وزیراعظم کو ہر طرف سے گھیرنا چاہتی ہے، یہ ٹی او آر پورا منشور ہے معاملہ کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے اپوزیشن کا ہدف کرپشن کو بے نقاب کرنا نہیں وہ اس معاملہ کو متنازعہ بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اپوزیشن نے ٹی او آر کا تماشہ لگا دیا ہے ثالث کے طور پر ہم نے سپریم کورٹ کو قبول کرلیا، اپوزیشن کے ساتھ اتفاق نہ ہوا تو کیس آگے نہیں بڑھ سکتا، آئندہ اسمبلی سیشن میں پارلیمنٹیرینز کیلئے اخلاقیات کمیٹی بنانیکی تجویز پیش کرونگا، ٹی او آرز کا ہدف کرپشن ہونا چاہیے ایک شخص نہیں۔ پنجاب ہائوس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا طرز عمل یہ ہے وزیر اعظم پر الزام لگے تو درست جب کہ اپنوں کے خلاف الزام غلط ہے۔ عمران خان کا جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کے معاملے پر پولیس پر الزام بے بنیاد ہے، انہوں نے انتظامیہ، نادرا، میڈیا اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنانے کی پیشکش کی جو معاملے کی تحقیقات کرے کہ جلسوں میں خواتین سے بدتمیزی کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے تھے یا تحریک انصاف کے، اگر کسی کو ٹھڈا بھی لگ جائے تو الزام حکومت پر لگا دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پانامہ لیکس پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ واضح موقف قوم کے سامنے رکھا جائے، پانامہ لیکس میں دنیا بھر کے حکمرانوں اور کاروباری افراد کا ذکر تھا، صرف وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کا نام نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف پوری دنیا میں پہلے حکمران تھے جنہوں نے پانامہ لیکس پر ایکشن لیا اور کمشن کے قیام کا اعلان کیا۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ وزیراعظم کے اعلان کے بعد کمشن کی سربراہی کیلئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک، تصدیق جیلانی، جسٹس(ر) ثائر علی سمیت کئی معزز (ر)ججز سے رابطے کئے۔ ریٹائرڈ ججز پر پوری قوم کو اعتماد تھا لیکن اپوزیشن کی طرف سے اتنا شور و غل کیا گیا کہ معاملہ انجام کو نہ پہنچ سکا، کچھ ججز نے سوچنے کیلئے وقت مانگا لیکن میڈیا پر چلنے والے شور کے باعث انہوں نے ایک ایک کر کے معذرت کرلی، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا کہ ایف آئی اے معاملے کی کیوں تحقیقات نہیں کرتی، جس پر میں نے اعلان کیا کہ ایف آئی اے تحقیقات کیلئے تیار ہے لیکن میرے اعلان کے بعد اپوزیشن اس معاملے سے بھی پیچھے ہٹ گئی اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا، حکومت اس پر بھی راضی ہو گئی تو اپوزیشن پھر اس مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ گئی، بعد میں ہر طرف سے آواز آنے لگی کہ تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمشن کے علاوہ کوئی آپشن قبول نہیں اور حکومت چیف جسٹس کو پانامہ لیکس کے معاملے پر کمشن کے قیام کیلئے خط لکھے، بالآخر حکومت اس پر بھی راضی ہو گئی اور چیف جسٹس کو خط لکھ دیا، وزیراعظم کا خاندان سمیت احتساب کیلئے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے جانے پر امید تھی کہ اب الزام تراشی، بہتان اور میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بند ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، ہمارا موقف تھا کہ اس کیس کو بہتان تراشی اور میڈیا ٹرائل کی نذر نہیں ہونا چاہیے، ملک کی عدلیہ آزاد ہے، حکومت اور عوام کو عدالتوں پر اعتماد ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جنہیں وہی عدالت قبول ہے جو ان کے حق میں فیصلہ دے۔ چودھری نثار نے کہا کہ اپوزیشن روز ایک نیا الزام لگا دیتی ہے، ان کے اپنے دور میں ہر روز کوئی نہ کوئی کرپشن کیس میڈیا پر آتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے واضح کہا کہ اگر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو گھر چلا جائوں گا، اس سے بڑی نیک نیتی کیا ہو سکتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے کو سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے، اپوزیشن کے ایک مخصوص طبقے کا نشانہ کرپشن نہیں ہے بلکہ وزیراعظم نواز شریف ہیں، وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، وہ جیسے مرضی تحقیقات کرے لیکن اپوزیشن کی طرف سے ٹی او آرز کے نام پر نیا ڈرامہ کیا گیا۔ اپوزیشن سے درخواست ہے کہ خدارا قوم کے سامنے حقیقت آنے دیں اور سچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، لوگوں کو بے وقوف بنانا اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، اس کے ذریعے پاکستان میں افراتفری کا خدشہ ہے۔ اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز میں خود ہی فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جے نے بھی وضاحت کر دی کہ دستاویزات میں وزیراعظم کا نام نہیں، سپریم کورٹ کا کمشن مکمل با اختیار ہو گا، کمشن حکومت کو بھی ہدایات جاری کرنے کا مجاز ہو گا، اپوزیشن کی دی گئی تجاویز غیر آئینی اور غیر مناسب ہیں، ماضی کی طرح وزیراعظم اس بار بھی سرخرو ہوں گے، اپوزیشن کے ٹی او آرز نے کمشن کو صرف پانامہ دستاویزات تک محدود کر دیا، ٹیکس چوروں اور قرضہ خوروں کو چھوڑ دیا۔ جب وزیراعظم اور حکومت کی طرف سے پانامہ لیکس کی تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں تو اپوزیشن کیوں رکاوٹ بنتی ہے، کیا ان کو اپنے ملک کی عدلیہ اور سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں ہے، ہمیں بھی سپریم کورٹ کے سامنے اپنا موقف رکھنے دیں، خود بھی اپنا کیس رکھیں، یا پھر کھل کر بتائیں کہ کیا انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد نہیں۔ لندن جاتے ہوئے عمران سے ملاقات ہوئی، اور ان سے بہت اچھی بات چیت ہوئی، بات چیت کا مثبت نتیجہ نکلا، ہم نے اسلام آباد میں جلسے کے معاملے کو بخوبی حل کرلیا، آج عمران خان کا بیان پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنا جلسہ منسوخ کر دیا اور الزام لگایا کہ پنجاب پولیس جلسوں میں خواتین کو تنگ کرنے میں مدد کرتی ہے، عمران خان الزامات کی بجائے ثبوت دیں، میں اس معاملے پر مشترکہ کمیٹی بنانے کی پیشکش کرتا ہوں، جس میں انتظامی نادرا اور میڈیا کے افراد شامل ہوں، متاثرہ خواتین سے بھی مدد لی جائے، میڈیا فوٹیج شیئر کرے، نادرا ان کی شناخت کرے گی، میڈیا اور دیگر ہمیں نشاندہی کریں ہم چن چن کر ان لوگوں کو شناخت کریں گے پھر میڈیا اور اپوزیشن فیصلہ کرے کہ وہ تحریک انصاف سے ہیں یا (ن) لیگ سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین سے بے حرمتی کے واقعات صرف تحریک انصاف کے جلسوں میں ہی کیوں ہوتے ہیں۔ جن کی اپنی آف شور کمپنیاں ہیں وہ وزیراعظم پر الزام لگا رہے ہیں، جو خود ٹیکس نہیں دیتے تھے اب حکومت پر ٹیکس چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ہر بات نہیں مانی جاتی لیکن حکومت نے پھر بھی اپوزیشن کا ہر مطالبہ مانا، اپوزیشن کے ٹی او آرز سامنے آئے تو لگا کہ ہم کسی اور ملک میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی اوآرز میں صرف ایک چیز نہیں تھی کہ سپریم کورٹ بھی نئی بنائیں، باقی اس میں سب کچھ ہے، ہمیں امید تھی کہ اس معاملے پر پیش رفت ہو گی اور کچھ لو کچھ دو کے تحت ٹی او آرز پر اتفاق کر کے سپریم کورٹ کو بھیجے جائیں گے لیکن آج یہ ایک ایک کر کے ٹی او آرز پڑھتے تو سوائے افسوس کرنے کہ اور کچھ نہ کر سکے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹی او آرز کے معاملے پر اپوزیشن کی بدنیتی سب کے سامنے ہے، حکومت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جامع ٹی او آرز بنائے لیکن اپوزیشن کے ٹی او آرز دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی، حکومت نے چیف جسٹس کو اختیار دیا کہ جتنے ججز کا چاہیں کمشن بنائیں، کمشن کو ٹیکس چوروں، قرضہ معاف کرانے والوں کی تحقیقات کا بھی اختیار دیا لیکن اپوزیشن کے ٹی او آرز بدنیتی پر مبنی ہیں، اپوزیشن تجاویز کی بجائے پہلے دن سے ہی ٹی او آرز پر تنقید کر رہی ہے، اپوزیشن کے ٹی او آرز ظاہر کرتے ہیں کہ صرف وزیراعظم نواز شریف کی ذات کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، جب وزیراعظم کا پانامہ لیکس میں نام ہی نہیں تو انہیں کیسے ذمہ دار بنایا جا رہا ہے، وزیر داخلہ نے کہا کہ مذاکرات کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ آن لائن کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مسترد کر دیا ہے اور ٹی او آرز مشاورت سے بنانے کی پیشکش کر دی۔ وزیر داخلہ نے کہا کچھ لوگ پانامہ لیکس پر کھیل تماشا چاہتے ہیں۔ کیس شور شرابے اور بہتان تراشی کی نذر نہ کیا جائے۔ زاہد حامد نے کہا کہ اپوزیشن نے ٹی او آرز میں فیصلہ بھی سنا دیا ہے۔ وزیراعظم سے تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ بھی بدنیتی ہے۔ انہوں نے پہلے سے مائنڈ بنا کر وزیراعظم کو قصور وار قرار دے دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سپریم کورٹ پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، وہ جیسے مرضی تحقیقات کرے لیکن اپوزیشن کی طرف سے ٹی او آرز کے نام پر نیا ڈرامہ کیا گیا، سپریم کورٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں، ٹی او آرز تو علیحدہ کمشن کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ این این آئی کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ وہ متفقہ ٹی او آرز کیلئے حکومت سے بات چیت کرے ، حکومت نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کئے مگر اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کیس میڈیا پر چلتا رہے الزام اور بہتان روز لگتے رہیں ، کچھ لوگ انا پرستی اور ضد بازی پر اترے ہوئے ہیں، اپوزیشن سب کے سامنے دیواریں کھڑی نہ کرے اور سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کیا جائے، ذرائع کے مطابق حکومت نے اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کی ہے، جس کا باضابطہ اعلان (آج) کیا جائے گا۔ اس میں وزیر قانون زاہد حامد، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان اور وزیر اعظم کے مشیر برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان بھی شامل ہوں گے۔

ای پیپر-دی نیشن