حکومت قائل کر لے‘ ٹی او آر بدل لیں گے: خورشید شاہ‘ ایک انچ پیچھے ہٹوں گا نہ چیف جسٹس کا حکومتی تجاویز پر بنایا گیا کمشن مانوں گا: عمران
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا اپوزیشن عدالتی کمشن کے ’’ٹی او آرز‘‘ پر حکومت سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے، ہمیں حکومت بتائے کہ اپوزیشن کے کون سے ٹی او آر قابل عمل نہیں، اگر ہمیں حکومت ٹی او آر پر قائل کر لے تو اپوزیشن ان پر نظرثانی کر لے گی اور تبدیل کرے گی۔ ٹی او آر بنا کر وزیراعظم نواز شریف کو ہدف نہیں بنایا، انہوں نے پامہ لیکس پر 2 بار قوم سے خطاب کرکے خود آ بیل مجھے مار والا کام کیا، پانامہ لیکس کے معاملہ پر اپوزیشن نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ نہ کرکے پیغام دیا ہے کہ اپوزیشن لڑائی کے موڈ میں نہیں حکومت اپوزیشن سے پانامہ لیکس معاملہ کی تحقیقات کے لئے کمشن کے ٹی او آر پر مذاکرات کرے، اپوزیشن نے متفقہ طور پر ٹی او آر بنائے ہیں جن کے حوالے سے حکومت کو باضابطہ طور پر خط کے ذریعے آگاہ کر دیا ہے، ملک میں جن لوگوں نے قرضے لے کر معاف کرائے انہیں بھی کٹہرے میں آنا پڑے گا۔ انہوں نے یہ بات پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیئرمین سینٹ نیئر بخاری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ذمہ داری آئی جی اسلام آباد کے گلے میں ڈالی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جب ٹی او آر ملے تو میں نے فیصلہ کیا کہ انہیں باقاعدہ طور پر حکومت کو بھجوائوں تاکہ بعد میںحکومت یہ نہ کہے کہ ہمیں اپوزیشن کے ٹی او آرکا علم نہیں تھا۔ میں نے حکومت کو لکھا ہے کہ ہم نے مل کر ٹی او آر بنائے ہیں اگر حکومت دیکھے تو یہ مناسب ٹی او آر ہیں حکومت ایک بھی پیرا بتادے جو ناقابل عمل ہو، ہم نے پانامہ لیکس میں ہونے والے انکشافات کو پیش نظر رکھا ہے توقع ہے کہ حکومت ٹی او آر پر پوری توجہ دے گی یہ حکومت اور نظام کے لیے بہتر ہے اپوزیشن مناسب طریقہ کے تحت چل رہی ہے اور مناسب طریقہ سے ٹی او آر حکومت تک پہنچا رہی ہے اس پر مذاکرات کئے جائیں وزیراعظم کو بھی موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر تفصیل بیان کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اپوزیشن کے ٹی او آر ہی تسلیم کئے جائیں اور نہ ہی تاریخ میں ایسی کوئی روایت ہے۔ عمران خان کے دھاندلی کے الزامات پر ہم نے مل کر ٹی او آر بنائے اب بھی ہم مل کر ٹی او آر بناسکتے ہیں حکومت اگر ہمارے ساتھ بیٹھے گی تو ہم بات چیت سے نہیں بھاگیں گے مذاکرات جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ مجھ سے ابھی تک کسی حکومتی عہدیدار نے رابطہ نہیں کیا جب بھی کوئی حکومتی عہدیدار مجھ سے رابطہ کرے گا تو میں اس حوالہ سے دیگر جماعتوں کو بھی آگاہ کروں گا۔ جن لوگوں نے کرپشن کی ہے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں ٹیکس بچائے ہیں ان کو بھی کٹہرے میں آنا پڑے گا وزیر اعظم کے اہلخانہ کے ساتھ 200اور افراد کی بھی لسٹ ہے وزیراعظم کا نام ہم اس لیے لے رہے ہیں کہ انہوں نے خود آکر کہا آبیل مجھے مار، دو مرتبہ قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بارہا کہا کہ میرے بچے ان چیزوں میں ملوث نہیں ان کی صفائی دینے کی کوشش کی وزیراعظم کو صرف اس لئے نمبر ون رکھا ہے کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ہم نے میاں نوازشریف کو ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ موقع فراہم کیا ہے بین الاقوامی سطح پر یہ سکینڈل سامنے آیا اس سکینڈل پر دو ممالک کے وزرائے اعظم نے استعفے دے دئیے اسی فہرست میں وزیراعطم کے خاندان کا نام بھی آیا وزیراعظم کے صاحبزادے نے خود کہا کہ ہم ٹیکس بچانے کے لئے آف شور میں گئے پھر ہم ملک میں کس منہ سے ٹیکس کی بات کریں گے یہ پہلو اور ہے اور وہ پہلو اور ہے کہ پیسے کس طریقہ سے گئے، اربوں ڈالرز کے فلیٹ کیسے لئے گئے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ وہ سابق چیئرمین نیئر بخاری کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے آئی جی اسلام آباد نے یہ بات کہی ہے کہ واقعہ سے ہمارا مورال کم ہو گیا میں آئی جی سے پوچھتا ہوں مسٹر آئی جی یہ بتائو اسی روڈ پر ہمارے غریب سپاہیوں کو مارا جارہا تھا ایس پی کو مار مار کر دنبہ بنایا گیا اس وقت تمہارا مورال کدھر تھا۔ اس لئے کہ نیئر بخاری کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے آپ حکمرانوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں میں نہیں کہتا کہ یہ وزیر اعظم نواز شریف یا چودھری نثار نے کرنے کا کہا ہے یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں والی بات ہے۔آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے حوالہ سے پہلے آرڈیننس آئے گا پھر بل کی صورت دی جائے گی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ٹی او آر انتہائی سافٹ ہیں، حکومت ان ٹی او آر کو دیکھے اور سمجھے جو حکومت اور ریاست کیلئے بہتر ہوگا۔ خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پانامہ لیکس معاملہ کی تحقیقات کے لئے مجوزہ کمشن کے 15 متفقہ ٹرمز آف ریفرنس کی کاپی وزیراعظم میاں نوازشریف کو بھجوا دی۔ انہوں نے اعتزاز احسن کی رہائش گاہ پر 2 مئی کو ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ بھی خط کے سات منسلک کیا ہے، خورشید شاہ نے وزیراعظم سے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا احترام کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا خط وزیراعظم آفس کو موصول ہو گیا، ذرائع کے مطابق خط کے آئینی وقانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کیلئے وزارت قانون کو بھجوایا جائے گا، قانونی وآئینی مشاورت کے بعد آئندہ دو تین روز میں اس کا جواب بھجوایا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے حزب اختلاف کی طرف سے پیش کردہ ضابطہ کار پر حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف جب خود کو احتساب کے لیے پیش کر چکے ہیں تو حکومت کو حزب اختلاف کی طرف سے پہلے ان کے احتساب پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ حکومتی اعتراضات کے جواب دیتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ اولین ذمہ داری نواز شریف کی ہے کیونکہ وہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی طرف سے مشترکہ طور پر وضع کردہ ضابطہ کار میں وزیر اعظم اور دیگر افراد کے درمیان کوئی تمیز نہیں کی گئی اور ان تمام افراد کو جنہیں الزامات کا سامنا ہے اپنے اثاثوں کا اعلان کرنا پڑے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابتدا وزیر اعظم سے ہونی چاہیے اور قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے ایسا کرنے کے لیے خود کو پیش کیا تھا۔
لاہور+ اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے و قت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر میاں صاحب کے اہل خانہ کے چار مختلف بیانات ہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف پر منی لانڈرنگ، کرپشن، الیکشن کمشن میں جھوٹ بولنے اور اپنے اثاثے چپھانے کا الزام ہے، وزیراعظم حسنی مبارک اور کرنل قذافی کی طرح رویہ اختیار نہ کریں۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ملک کے وزیراعظم نے چار قانون توڑے ہیں۔ اب وزیراعظم دوسروں کو ٹیکس دینے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ میاں صاحب کا ایک بیٹا کچھ اور دوسرا کچھ کہہ رہا ہے۔ ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی سامنے آئی ہے۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم جوابدہ ہوتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ جمائما مسلمان ہو کر پاکستان آئیں تو اس پر یہودی لابی کا الزام لگایا گیا۔ مسلم لیگ ن والے سیتا وائٹ کا ذکر کر کے گھٹیا الزامات لگاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے بیٹے کو لیکچر دینا چاہیے کہ پیسے کیسے بنائے جاتے ہیں ۔کیا حکومت کا کام لوگوں کو بلیک میل کرنا ہے۔ میرے سارے اثاثے ڈکلیئر ہیں میاں صاحب کی طرح بچوں کے نام پر نہیں کئے۔ عمران نے کہا کہ خواتین کا تبدیلی لانے میں بڑا اہم کردار ہے۔ جلسوں میں خواتین کی سکیورٹی کے لئے اپنی فورس بنائیں گے اور خواتین سے بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جلسے کی فوٹیج پولیس اور نادرا کو بجھوائیں گے۔ لاہور میں جلسہ گاہ کے اندر کچھ نہیں ہوا یہ واقعہ باہر جانے پر پیش آیا۔ شک ہے کہ خواتین کو ڈرانے کے لئے ہمارے سیاسی مخالفین جان بوجھ کر یہ سب کچھ کروارہے ہیں مگر ابھی کسی پر الزام نہیں لگائوں گاکیونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں آئندہ کسی جلسے میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی نہیں ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ بہتر ہے میاں صاحب قوم کو اپنی تمام پراپرٹی سے متعلق آگاہ کردیں سچ بول دیں تو بہتر ہے ورنہ ان کی مشکلیں بڑھتی جائیں گی۔ ابھی میاں صاحب کے پاس بڑا زبردست موقع ہے وہ سب کچھ سچ سچ بتا دیں۔ عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم کے خط پر چیف جسٹس نے کمشن بنایا تو تسلیم نہیں کریں گے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے تو تحریک بڑھتی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے بیانات پر افسوس ہوا۔ کرپشن روک دی گئی تو پاکستان کا مستقبل روشن ہو گا۔ نواز شریف کے پاس حکومت کرنے کا اخلاقی جواز ختم ہو گیا۔ اپوزیشن نے زبردست ضابطہ کار بنایا ہے۔ وزیراعظم کے پاس عوام کے ٹیکس کا پیسہ امانت ہے، میں اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اگر چیف جسٹس نے وزیراعظم کا تجویز کردہ کمشن بنایا تو منظور نہیں ہو گا۔ کوشش ہے ساری اپوزیشن جماعتیں متحد رہیں۔ وزیراعظم کو بنوں میں 2 خریدار مل گئے۔ میاں صاحب ہمیشہ کی طرح اپوزیشن کو خریدنے کی کوشش کریں گے۔ پانامہ پیپرز میں وزیراعظم کا نام آیا ہے۔ کسی بھی وزیراعظم کیخلاف تحقیقات ہوں تو انہیں مستعفی ہونا چاہئے۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز کرپشن روک سکتے ہیں۔ میاں صاحب کے پاس بڑا زبردست وقت ہے سب کچھ بتا دیں۔ 1956ء ایکٹ کے تحت آج تک کسی کمشن کا فیصلہ نہیں ہوا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان خود جواب دہ ہیں آف شور کمپنیوں کا ان سے پوچھیں۔ پنجاب میں 8 سال حکومت کرنے کے بعد آپ کو پتہ چلا کہ انہوں نے غلط کام کئے۔ اگر علیم خان اور جہانگیر ترین نے غلط کام کئے تو انہیں پکڑیں۔ دریں اثناء تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں پانامہ لیکس کے حوالے سے پارٹی کی آئندہ حکمت عملی پر غور کیا گیا جس میں خیبر پی کے اور پنجاب میں فیصل آباد اور سیالکوٹ کے احتجاجی جلسوں کے بارے میں امور زیر غور آئے۔ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے ہمراہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن میں تفتیش کیلئے وفاقی حکومت کو بھجوائے گئے ٹی او آرز اور اس حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حکومتی ردعمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اور اپوزیشن اور حکومت کے ٹی او آرز پر ممکنہ مذاکرات پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔