• news

پانامہ لیکس: تحقیقات کا سلسلہ چل نکلا تو بات دور تک جائیگی

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پانامہ لیکس اور بدعنوانی کے دیگر معاملات پر تحقیقات کا سلسلہ چل نکلا تو بات دور تک جائے گی۔ اس وقت پاکستان کی سیاست میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں، الیکٹرانک میڈیا کی چیخم چنگھاڑ نے حدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے لیکن اس سیاسی گردو غبار کے عقب میں اور عام نظروں سے اوجھل ایسی بنیادی تبدیلیوں کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے جن کا نتیجہ برآمد ہونے کی صورت میں کرپشن فری پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، کم و بیش سب ہی بدعنوان سیاسی اداکار منظر سے غائب ہو سکتے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے ایسے احتساب کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کر رہے ہیں جو بلاامتیاز ہو گا تاہم ایسے احتساب کی خواہش مند مقتدر قوتوں کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ انہیں پہلے اپنی صفوں کی جاری تطہیر مکمل کر کے اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاقی مقام پر فائز کرنا ہو گا۔ ایک قابل اعتماد ذریعہ کے مطابق ان قوتوں کے نزدیک ملک کو کرپشن فری بنانے کیلئے اپوزیشن کی شرائط تحقیقات (ٹی او آرز) کے بجائے حکومتی ٹی او آرز کو ہی زیادہ حقیقت پسندانہ، مزید وسیع البنیاد اور مؤثر بنا کر بااختیار کمشن تشکیل دیا جا سکتا ہے جو سرعت سے قابل عمل مدت کے اندر اشرافیہ کے ایسے تمام عناصر کی ٹھوس نشاندہی کر سکے گا جنہوں نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر غیر قانونی طور پر دولت کمائی اور ملکی دولت بیرون ملک منتقل بھی کی۔ اس ذریعہ کے مطابق یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ پانامہ کی کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری جائز ہو لیکن اب یہ کلچر تشکیل دینے کا وقت آ گیا ہے کہ ملک میں سیاست اور حکومت کرنے والے تمام عناصر کے اثاثے اور مفادات کلی طور پر پاکستان اور عوام سے ہی وابستہ ہوں۔ مسئلہ محض پانامہ لیکس کا نہیں کیونکہ ملک کے مقتدر طبقہ جس میں سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹ، تاجر، صنعتکار، میڈیا گروپ اور کچھ صحافی بھی شامل ہیں نے جو کرپشن کی وہ ہوشربا ہے۔ اس کرپشن نے اب ملک کی بقاء کیلئے خطرات پیدا کر دئے ہیں۔ اسی حقیقت کے پیش نظر سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو بار بار یاددھانی کرائی جا رہی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود گند صاف کریں، کرپشن کو سیاسی فلسفہ کے طور پر استعمال نہ کریں، ملک کے حال اور عوام پر رحم کریں تاہم ان یاددہانیوں کی قدر نہیں کی گئی۔ کرپشن سے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات اور سیاسی جماعتوں کے گند کے ضمن میں عزیر بلوچ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ چھوٹو گینگ اس ضمن میں دوسری مثال ہے۔ چھوٹو گینگ نے ٹی ٹی پی، بلوچ علیحدگی پسندوں، سندھی قوم پرست دہشت گردوں، فرقہ پرست دہشت گردوں کو بھاری معاوضوں پر پناہ گاہیں فراہم کیں، اسلحہ سمگل کرنے میں مدد کی۔ اس ذریعہ کے مطابق عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی مکمل ہے جس پر سندھ حکومت دستخط کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ وہ اس رپورٹ میں شامل ایک بھائی بہن کے نام خارج کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ وہ سیاسی سرپرستی کے باعث وجود میں آنے والے ایسے ملک دشمن گروپوں کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہوا تو سیاسی جماعتوں سے توقع کی گئی کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر سے جان چھڑائیں گی جو بالآخر خود ان کیلئے بھی خطرہ بن گئے ہیں۔ اس کے باوجود بدعنوانی کے ارتکاب، بھاری رقم کی بیرون ملک منتقلی اور ایسے عناصر سے فائدہ اٹھانے کی روش ترک نہیں کی گئی۔ وقت آ گیا ہے کہ کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے اس کلچر کو جڑ سے اکھیڑ دیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن