الزام تراشی کا کلچر فروغ پا رہا ہے، اشرافیہ اور سیاستدان چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا علاج کرانے بیرون ملک جاتے ہیں: چیف جسٹس
کراچی (این این آئی+ آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہاہے کہ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا کلچر پنپ رہا ہے لیکن کوئی بھی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نبھانے کو تیار نہیں ۔قانون پرعملدرآمدکی ذمہ داری صرف عدلیہ کی نہیں پورے معاشرے کی ہے۔مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے ملکی آبادی پر توجہ دینا ہو گی۔ ہمیں اپنے عدالتی نظام کو جلد از جلد اردو میں منتقل کرنا ہو گا۔ عدالتیں اپنا کردار ادا کریں تو معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ عدالتی اور قانونی نظام کو قومی زبان میں رائج کیا جائے ۔ بنیادی اور اہم معاملات پر متفقہ لائحہ عمل تیار نہ کرنا ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جوڈیشل ایجوکیشن کے حوالے سے منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جسٹس انورظہیر جمالی نے کہاکہ انسانی بنیادی حقوق کی واضح تفصیل آئین پاکستان میں موجود ہے اس لئے ملک میں انسانی حقوق کے خلاف کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا۔ ملک میں کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے جبکہ سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم بنیادی اور اہم معاملات پر کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں بناسکے۔ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کانظام پنپ رہاہے۔ ہرشخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریاں اورفرائض بنھانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقننہ انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے سب سے اہم چیزیہ ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے ۔ عدلیہ کی آزادی کیلئے ہر شخص کو اپنی ذمے داری نبھاناہوگی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ جس طرح ہمارے ملک کے اشرافیہ اور سیاستدان اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لئے بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں اسی طرح ہم اپنے مخصوص مسائل کے حل کے لئے دوسرے ممالک کے قانونی اورعدالتی نظام سے استفادہ حاصل کرتے ہیں، یہ کوئی بری بات نہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مخصوص حالات کو پیش نظررکھتے ہوئے ان مسائل کا حل مقامی سطح پر بھی تلاش کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 27 سال گزرگئے لیکن آج بھی اردو زبان کا نفاذ نہیں ہو سکا، ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس کا نفاذ بھی ضروری ہے، ہم ملک میں قومی زبان رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن ابھی بھی ہم اپنی زبان سے ناآشنا ہیں۔ دنیا بھر میں قانونی تعلیم قومی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ تاہم یہاں تمام عدالتی کارروائیاں انگریزی زبان میں کی جاتی ہیں۔ اب کچھ جج صاحبان قومی زبان میں فیصلے دے رہے ہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ انٹر کے بعد قانون کی ڈگری پانچ سال پر محیط ہونی چاہیے۔ اردو زبان کے مکمل نفاذ تک انگریزی زبان کو بھی ساتھ رکھا جائے ۔ملک میں معیار تعلیم خصوصاً قانون کی تعلیم میں بہتری کی ضرورت ہے تاکہ عدالتیں آئین کے مطابق فیصلے کر سکیں ۔ مثبت ذہن اورسوچ پربحث سے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں خواندگی کی شرح 58فیصد ہے لیکن ان میںاکثر گریجویٹ تک تعلیم یافتہ افراد انگریزی یا اردومیں صحیح طریقے سے اپنا موقف بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔ اس موقع پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ صوبائی حکومت نے سندھ جوڈیشل اکیڈمی کیلیے 100ایکڑ زمین دی ہے ۔ اکیڈمی بین الاقوامی معیا رکے مطابق ہو گی ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ سندھ جوڈیشل اکیڈمی جوڈیشل نظام قانون میںموجود خرابیوںاور مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریگی ۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ اکیڈمی میں تعلیم حاصل کرنیوالے جوڈیشل نظام کو بہتر بنانے میں اپنا کردارادا کریںگے۔