• news
  • image

یہ مسافتیں کچھ اسطرح سے کٹھن بھی نہ تھیں…!

کسی ملک کی فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔جب قوم سو جاتی ہے تو یہ فوجی جاگ رہا ہوتا ہے۔بائونڈری ڈیفنس پہ متعین فوجی دشمن کی حرکات و سکنات پہ نظر رکھے ہوتا ہے۔شاید ہی ہم نے کبھی اس بات کی طرف توجہ دی ہو کہ آخر عالمی طاقتیں نسبتاً غیر مستحکم و پسماندہ ملکوںکی نوجوان نسل کو ایڈوانس کورسز کروانے کیلئے اپنے ملک میں بلاکر اربوں ڈالرز کیونکر خرچ کرتی ہیں۔عالمی طاقتیں ٹیلنٹ ہنٹر ہیں اوروہ ہماری نسل کواپنے حق میںپلٹانے کیلئے تربیتی کورسز کے ذریعے ذہن سازی کا کام کرتے ہیں ہمارے پاس ایک ایسا محترم طبقہ بھی ہے جو ہماری نسل کی نظریاتی ذہن سازی، جذبہ حب الوطنی کی آبیاری اوراخلاقی سربلندی و پروفیشنل ہنر مندی کا پاسبان ہے۔ اس طبقے کی راہنمائی نسل ِ نو کو قومی، مذہبی و سماجی ضرورتوں اور امنگوں کے مطابق ڈھالنے میں مددگار ہے۔نسل نو کیلئے ا س طبقے کی سرپرستی قوم کی باوقار زندگی کی ضمانت ہے۔یہ طبقہ اساتذہ ذی وقارکا طبقہ ہے۔حقیقت میں استاد بننا اتنا سہل نہیںجتنا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔ درس و تدریس، تعلیم و تربیت اور انسانیت سازی۔ اصلاحی وفلاحی ہنر مندی کا ایک پیچیدہ کام ہے۔استاد کو معمار وطن کہا جاتا ہے ،استاد کونسل نو کا نگہبان مانا جاتا ہے استاد کو قوم کی حیات جاوداںسمجھا جاتا ہے مگر آج کا استا داپنے ہی ذاتی معاملات کے درست رکھنے میں استادی دکھانے پہ آچکا تھا اپنے پروفیشنل وقار ہی کی پاسبانی کرنے سے روگرداںہو گیا تھا آج یہ سب ماضی کا حصہ معلوم ہورہا ہے کہ الحمدللہ بڑی مشکل سے ،بے حد محنت سے ،باربار کی تنبیہ و عملی اقدام کی پیش رفت سے اس استاد (خصوصاکالج و یونیورسٹی کے استاد)کوتعلیمی ادارے سے اس کارشتہ یاد دلایا گیاہے، اسکا ادارے میں حاضر ہونا بلکہ یہاں وقت گزارنا یاد دلایا گیا ہے یہ محکمہ تعلیم پنجاب کی اعلی سطحی ٹیم اور اس ٹیم کے کپتان جناب عرفان علی صاحب کا کریڈٹ ہے کہ صرف چند ماہ کی محنت سے آج استادنہ صرف ادارے میںحاضری میں باقائدگی اختیار کر چکے ہیں بلکہ وقت پابند اداروں کو وقت بھی دینے لگے ہیں نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے انعقاد انتظامی معاملات میں اپنے حق کے فرائض کی ادائیگی کے علاوہ سرکاری احکامات پہ عملدرآمد کو اپنا تعلیمی کردار سمجھنے لگے ہیں یعنی اپنے ٹریک سے ہٹا یہ استاد آج اپنے ٹریک پہ آنا شروع ہو گیا ہے۔اب بدلہ ہے استاد تو بدلے گا زمانہ کا ذکر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ استاد کے فرض شناس ہو جانے سے دراصل استاد کے اپنے وقار میں ہی اضافہ ہوا ہے محکمہ تعلیم حکومت پنجاب اساتذہ کو فرض شناس ہی بنانانہیں چاہتا بلکہ اساتذہ کی محکمانہ و پروفیشنل پرابلمز کو بھی حل کرنے میں ممدومعاون کردار ادا کررہاہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بہترین کاکردگی ہمارے سامنے ہے جس پہ کسی اور دن ضرور بات ہو گی مگر چند روز پہلے تمام پرنسپلزکو محکمہ تعلیم کی جانب سے ایک حکم نامہ وصول ہوا ہے جس میں اساتذہ کو اداروں میں سیاسی جوڑتوڑ کرنے اور اکیڈمک ماحول کو خراب والے عناصرکو اپنے صائب تعلیمی کردار میں رہنے کی تینبہ کی گئی ہے میرا خیال ہے کہ میرے تعلیمی کیرئیرمیںپہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے اکیڈمک ماحول کوبحال رکھنے کیلئے اتنا painلیا جارہا ہے اس میں شک نہیں کہ آج کل کالجز میں اساتذہ کی چند تنظیمیںالیکشن مہم کے دوران کچھ سست و کاہل اساتذہ کی کھیپ اپنی تن آسانی کیلئے موجود ہ متحرک ومستعدانتطامی قوت سے نالاں ہے اور وہ ان تنظیموں سے اساتذہ کو اداروںمیں اپنی من مانیوںوالے پہلے جیسے سہل پسندیدگی کے ماحول کو واپس لانے کے عہد لے رہے ہیں اوران اساتذہ تنظیموں کے سربراہان بھی سستی شہرت و حمایت کے حصول کیلئے ہر طرح کا نعرہ اور ہر نوع کا وعدہ کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔میر ا خیال ہے کہ محکمہ تعلیم کو اس صورتحال کا ادراک ضرورہونا چاہیئے تاکہ ہمارے تعلیمی اداروں کے اکیڈمک انوائر منٹ کی وہ تطہیرجو موجودہ محکمہ تعلیم کی ہائی کمان کی انتھک محنت سے ممکن ہوئی ہے اسے برقرار رکھا جائے۔ اساتذہ کے محکمانہ مسائل کے حل کیلئے اسٹیبلشمنٹ دن رات کام کر رہی ہے۔مگر سوال اساتذہ کی اپنی کارکردگی اور ڈی ووشن کا بھی ہے۔جو کارکردگی مجموعی طور پر ہمارے اساتذہ کی ہے اس لحاظ سے محکمانہ اساتذہ کا ریٹرن شایدحقیقی اساتذہ کے اطمنانِ قلب کیلئے کافی ہو مگرباقی اساتذہ کو بھی تو چاہیئے کہ وہ اپنے طالبعلموں کی تعلیمی کوالٹی کوبڑھانے کیلئے اپنی ذاتی کوالٹی آف ایجوکیشن بھی بڑھائیں۔پندرہ بیس سال کا ایم اے پاس استاد آج کے جدید تعلیمی تقاضوں میں فٹ ہونے، ماڈرن وایڈانس علم سے بہرہ مندہونے کی کوشش ہی نہیں کرتابلکہ وہ تو چاہتا ہے کہ کلاسز ہی نہ ہوں یا پھر کاروائی ڈال کر بس نوکری کر لی جائے۔ ہم تعلیمی اداروں کے پورے ماحول کو نصابی و ہم نصابی سرگرمیوںکے ذریعے اسلامی شعار و نظریاتی اقدار کی پروقار تقاریب سے اکیڈمک رنگ میں رنگنے کی سعی کر رہے ہیں کیونکہ آج کے گلوبل سنیریومیں اس ملک کو علمی معرفتوں کے متلاشی استادکی اشد ضرورت ہے۔دس اساتذہ کی بارہ تنظیمیںاور تیرہ دھڑے۔۔ نہیںجناب بنیاد نعرے ، قومی درد سے نا آشنائی ، سستی شہرت کے دلدادہ استاد اب نہیں چلیں گے۔ کیونکہ ہمیں سر سید احمد خان ، موسیٰ بن نصیر، جابر بن حیان اور بو علی سینا جیسے سائنسدان و مفکرین کی ضرورت ہے بصورت ِ دیگر انسانیت سازی اور علمی معرفتوں کا سفرکیسے کٹے گا۔۔؟؟؟ ارضِ پاک پہ رحم کیجئے!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن