• news
  • image

ذکر چوبچہ پھاٹک، ماڈل ٹائون سرگودھا اور صحافی کالونی ملتان کا

پنجاب میں گڈ گورننس کا کریڈٹ شہباز شریف کو دیا جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ پنجاب کی تاریخ کے ایک دو اچھے اور محنتی وزرائے اعلیٰ میں شمار کئے جا سکتے ہیں مگر اب یہ تاثر بھی عام ہو رہا ہے کہ ملکی سطح پر اقتدار کی کشمکش اور آنکھ مچولی میں انکے بڑھتے ہوئے کردار اور مصروفیت کے باعث پنجاب میں ان کو بہت زیادہ انحصار بعض ایسے افسروں پر بھی کرنا پڑ رہا ہے جو شاید ان سے زیادہ اپنے مفادات سے مخلص ہیں۔ جب میاں صاحب اپنی ساکھ کی خاطر کسی قصبے میں کسی سے انفرادی زیادہ کے ازالہ کیلئے پہنچنے اور پھر اسکی میڈیا میں تشہیر کے ذریعے دوسروں کو انتباہ کی شہرت رکھتے ہوں تو انکے علم میں بعض ایسی اجتماعی نااہلیوں اور زیادتیوں کا لانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی جماعت کی ساکھ کی خاطر ان معاملات کی طرف بھی توجہ دے سکیں۔ لاہور میں بہت زیادہ ترقیاتی کام کرانے کے باعث ان کو مخالفین سے طعنے سننے پڑتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب اور بعض دوسرے علاقوں کے حوالے سے طعنہ دینے والوں کو یہ علم نہیں کہ خود لاہور کے بعض مرکزی حصے ایک مدت سے بعض بنیادی ضرورتوں کو ترس رہے ہیں۔ مثلاً لاہور کے وسط میں لاہور کو باغ و بہار بناتی ہوئی نہر پر دھرمپورہ اور مغلپورہ کے درمیان دو ریلوے پھاٹک ہیں۔ ایک بھارت کو آتی جاتی ٹرین کیلئے اور دوسرا ڈرائی پورٹ کوآتی جاتی مال گاڑیوں کیلئے اور دونوں کو ایک فلائی اوور کے ذریعے کور کیا جا سکتا ہے۔ روزانہ صبح و شام ان پھاٹکوں کی وجہ سے برسوں سے ہزاروں کے حساب سے شہری گھنٹوں عذاب میں مبتلا رہتے ہیں مگر شاید میاں صاحب کی حکومت کے بعض نا اہل افسران اس اہم مسئلہ کی نزاکت کا احساس نہیں دلاتے اور علاقہ کے مسلم لیگ ن کے منتخب نمائندوں روحیل اصغر شیخ سمیت کسی کی بات نہیں سنی جاتی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک ہم روٹ یعنی میٹروبس سروس کو استعمال کرنیوالے ہزاروں شہری شہر بھر میں انکی ساکھ کی تشہیر کرتے ہیں تو نہر کے ٹریفک کے اس اہم ترین حصے سے گزرنے والے ہزاروں شہریوں کی پریشانی مسلم لیگ ن کی حکومت کی ساکھ برباد کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ اب جبکہ شاہراہ قائد اعظم سے آگے نہر کے دونوں طرف رنگ روڈ تک نہر کو کشادہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کیلئے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے تو ضروری ہے کہ چوبچہ پھاٹک اور ناچ گھر پھاٹک یعنی ان جڑواں پھاٹکوں پر فلائی اوور بھی بنا دیا جائے ورنہ یہی سمجھا جائیگا کہ نہر کی کشادگی صرف ٹھیکہ داروں کے وارے نیارے کرنے کیلئے ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت راستوں کو کشادہ کرنے کی شہرت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو چھوت فراہم کرنے کیلئے مختلف رہائشی سکیمیں بنانے کی شہرت بھی رکھتی ہے اس ضمن میں بھی ایک دو المیے ریکارڈ پر موجود ہیں اورمیاں صاحب کو شاید کم ہی ان کے بارے میں بتایا جاتا ہو گا ایک المیہ تو سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ کی ’’تاریخی‘‘ ہائوسنگ سکیم ’’ماڈل ٹائون سرگودھا‘‘ کا ہے جسکے انچارج ہمیشہ ڈپٹی کمشنر ہائوس سی او سرگودھا بلحاظ عہدہ رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر تشہیر سے 1990ء کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ سکیم میاں صاحب کے دور کی ہے۔ کرپشن بدعنوانی اور بدانتظامی کی اس بدترین مثال کا تذکرہ سرگودھا ڈویژن کے ہر شہری کی زبان پر ہے۔ محتسب اعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب اور اسکے بعد لاہور ہائیکورٹ بھی میاں عامر امین، عذیر الحق وغیرہ الاٹیوں کی رٹوں پر سرگودھا کی انتظامیہ کو حکم دے چکی ہے کہ اس سکیم کو اب آباد کیا جائے اور بیس پچیس برس بعد ہی سہی، الاٹیوں کو پلاٹوں کا قبضہ دیا جائے مگر اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے سرگودھا امپرومنٹ ٹرسٹ اور ڈی سی او سرگودھا بدستور ٹال مٹول کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب چاہیں تو پہلی فرصت میں اس سرکاری سکیم کے ان گنت الاٹیوں (جن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں) کی دعائیں لے سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رہائشی سکیم صحافی کالونی ملتان کی ہے۔ لاہور میں تو صحافی کالونی کسی نہ کسی حد تک آباد ہو چکی ہے مگر ملتان میں ابھی تک صحافیوں کو قبضہ ہی نہیں دیا جا رہا ہے اور اس تاخیر ایک ایسے سیاسی چہرے کی مداخلت تھی جو اپنے ناجائز مفاد کیلئے صحافیوں کو اتنے عرصہ تک اپنے حق سے محروم رکھے ہوئے تھے۔ بظاہر یہ معاملات اس وقت کی گھمبیر سیاسی صورت حال میں زیادہ اہم محسوس نہ ہوں لیکن کسی حکومت اور سیاس جماعت کی ساکھ کا انحصار ایسے ہی واقعات پر ہوتا ہے کیا میاں صاحب اپنے ان نااہل حکام کا گریبان پکڑ سکیں گے۔ جو انکی ساکھ خراب کرنے اور ہزاروں شہریوں کو پریشان کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن