• news

ایشیا یورپ رابطہ‘ اہداف کو حقیقت کا روپ دینے کا وقت آگیا : میڈیا ڈائیلاگ

گوانگ ژو (سلیم بخاری/ نیشن رپورٹ) ایشیا یورپ میٹنگ (ASEM) کے رابطے کے موضوع پر میڈیا ڈائیلاگ کے دوسرے روز مقررین نے کہا کہ فورم اپنے قیام کی تیسری دہائی میں داخل ہو رہا ہے، اس موقع پر اسی سٹرٹیجی‘ فلسفے اور طریقہ کار کو نئی جہت دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے محنت کی جائے تو تائیوان کے شہر الان باٹور میں فورم کی 11 ویں کانفرنس مقاصد کے حصول کے حوالے سے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ چینی شہر گوانگ ژو میں جاری میڈیا ڈائیلاگ کے دوسرے روز بعض مقررین نے فورم کی کامیابیوں پر روشنی ڈالی اور بعض نے کارکردگی پر تنقید کی بعض مقررین نے اس پر اتفاق کیا کہ فورم کی کارکردگی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ شرکا نے کہا ایشیا اور یورپ میں رابطے اور ملاپ کے خیال اور ہدف کو حقیقت کا روپ دینے اور عملی اقدامات اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے کہا ایشیا، یورپ میٹنگ کا آسیان‘ جی 8 جی 20 اور یورپی یونین جیسی تنظیموں سے موازنہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایشیا اور یورپ کو ایک دوسرے کے ساتھ لانے کا چیلنج ایسا ہی ہے جیسا یورپ اور امریکہ کو ملانا۔ یورپی یونین سمیت 53 ممالک پر مشتمل فورم کے میڈیا ڈائیلاگ میں شرکت کرنے والے وفود نے مختلف کانفرنسز، سیمینارز ورکشاپوں اور دیگر تقریبات میں شرکت کی۔ شرکاء نے اتفاق کیا۔ ایشیا یورپ میں رابطے بڑھانے کے حوالے سے عوامی آگاہی اور تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈائیلاگ کے دوسرے اور آخری روز وفود نے مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر مختلف موضوعات پر بحث کی۔ پریذٹینشز دی گئیں جو بعد ازاں فورم کی باضابطہ دستاویزات کا حصہ بنیں گی۔ شرکاء نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ فورم کے مقاصد کے حصول کیلئے اور عوام کی آگاہی کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال ایک قابل قدر ٹول ثابت ہوسکتا ہے۔ بعض وفود نے اس موقف پر تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ بیلجیئم کے وفد نے کہا کہ سوشل میڈیا بعض مرتبہ لوگوں کو متحد کرتا ہے مگر زیادہ تر سوشل میڈیا منفی طور پر لوگوں کو تقسیم کر دیتا ہے۔ لہٰذا زیادہ زور لوگوں کے لوگوں سے روابط اور وفود کے تبادلوں پر ہونا چاہیے۔ بعض شرکا کا کہنا تھا کہ ویزے کے مسائل کی بنا پر لوگوں کی ملاقاتیں مشکل ہوتی ہیں تاہم سوشل میڈیا پر روابط میں پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک وفد کا کہنا تھا کہ لوگوں سے لوگوں کا رابطہ کامیابی کی کنجی ہے۔ ایک شریک نے بتایا کہ منگولیا کانفرنس میں ایشیا اور یورپ کے سینئر ایڈیٹرز کی راوئنڈ ٹیبل کانفرنس ہوگی جس میں ان ایڈیٹرز کو ایشیا یورپ میٹنگ فورم کے ممالک کے سیاسی رہنمائوں سے ملنے کا موقع بھی ملے گا۔ پاکستانی وفد کے رکن سلطان حالی نے تجویز دی کہ فورم کا نیوز پورٹل بنانے سے بھی ایک دوسرے کی معلومات شیئر کرنے میں آسانی ہوگی اس طرح ایک سٹوری تمام رکن ممالک تک جلد پہنچ جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ ایشیا یورپ میٹنگ کو اپنی مضبوطی کمزوری مواقع اور خطرات پر مبنی تجزیہ کرنا چاہیے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ میڈیا کو اس فورم کا سٹیک ہولڈر بنایا جائے۔ ایک یورپی وفد نے کہا کہ فورم کے مواد کو فیس بک‘ یو ٹیوب‘ ٹوئٹر پر شیئر کیا جانا چاہیے۔ روسی میڈیا نے میڈیا کا کردار بڑھانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ پاکستانی وفد کے رکن شہباز رانا نے دلیرانہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فورم کے چھوٹے ممالک میں بڑے ممالک کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ تمام رکن ممالک کے درمیان مساوات ہی فورم کے مقاصد کو پورا کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ویت نام کے وفد نے زور دیا کہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک جامعہ لٹریٹجی بنائی جائے اور رکن ممالک کو تجارت کو آزاد کرنا ہوگا۔ اگر ہم فورم کو عوام کی دیکھ بھال کے قابل نہیں بناتے تو پھر کوئی فورم کی دیکھ بھال بھی نہیں کرے گا۔ ایک شریک نے کہا کہ ایشیا یورپ میٹنگ کو سپورٹس تعلیم اور سیاحت میں مقابلے کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔

ای پیپر-دی نیشن