• news
  • image

پانا مہ پیپرز لیکس پر حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی پارلیمنٹ میں داخل

قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بلائے جانے کے بعد پانامہ پیپر لیکس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شروع ہونے والی’’ جنگ‘‘ نے پارلیمنٹ کا رخ اختیار کر لیا ہے ،اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں آنے پر مجبور کر دیا ہے تاہم ابھی تک صورت حال واضح نہیں وزیر اعظم جب جمعہ کو قومی اسمبلی میں آئیں گے تو اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب دیتے ہیں کہ نہیں، پرویز رشید نے ایوان میں یقین دہانی بھی کرائی کہ وزیر اعظم ایوان میں جمعہ کو آکر اپوزیشن کے تمام سوالات کا جواب دیں گے ،اپوزیشن بائیکاٹ ختم کر دے لیکن اپوزیشن نے ان کی ایک نہ مانی ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اپوزیشن حکومت پر دبائو برقرار رکھنا چاہتی ہے جہاں تک حکومتی حلقوں کا تعلق ہے وزیر اعظم ایوان میں ضرور آئیں گے لیکن دبائو میں آکر اپنے گوشوارے پیش کریں گے اور نہ ہی ان اپوزیشن کے ان سوالات کا جواب دیں گے جن کا مقصد وزیر اعظم کو بے توقیر کرنا ہو البتہ وزیر اعظم ایوان میں اپوزیشن کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں جب کہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے سامنے پا نامہ پیپرز لیکس پر بات نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ،وزیر اعظم بھی تذبذب کا شکار تھے بالآخر وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا سامنا کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے ،شنید ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن حکومت کے ساتھ رابطہ میں ہیں ،وفاقی وزراء پرویز رشید اور خواجہ آصف نے پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے چیمبر میں اپوزیشن کے رہنمائوں سے ملاقات کی جس میں سید خورشید شاہ نے وفاقی وزراء کو یوین دہانی کرائی ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کی ایوان میں آمد پر ان کی عزت وتوقیر کا خیال رکھے گی ،اور کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کرے گی اب دیکھنا یہ ہے اپوزیشن اپنی کمٹمنٹ کس حد تک پورا کرتی ہے ،بہر حال منگل کو سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی حیدر گیلانی کی بازیابی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کے درمیان برف پگھلنے کا باعث بنی ہے اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف ہارڈ لائن اختیار کر رکھی لیکن سید خورشید شاہ وفاقی حکومت کے رابطے میں ہیں ،ان کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے وہ وزیر اعظم کے پارلیمنٹ میں آ کر جواب دینے کے بعد کوئی ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ نہیں کرنا چاہتے وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی قائل کر رہے ہیں ،وزیر اعظم نے علی حیدر کو کابل سے پاکستان واپس لانے کے لئے اپنا طیارہ بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح انہوں نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو خط بھی لکھا ہے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سید علی حیدر کی بازیابی میں نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے وفاقی حکومت کے اس طرز عمل کا پیپلز پارٹی کی طرف سے مثبت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے منگل کو متحدہ اپوزیشن نے پانامہ پیپرز لیکس پر جواب دینے کے لئے وزیراعظم کی ایوان میں عدم موجودگی کے خلاف اجلاس کی کارروائی کا دوسرے روز بھی بائیکاٹ جاری رکھا ۔منگل کو قومی اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز ڈے ہو تا لیکن اپوزیشن نے پرائیویٹ ممبرز ڈے کی کارروائی میں حصہ نہیں لیا اپوزیشن نے اجلاس میں کچھ دیر شرکت کی جس کے بعد ایوان سے واک آئوٹ کر دیا جس نے با ئیکاٹ کی شکل اختیار کر لی ‘ ا اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کر کے ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالا، اپوزیشن نے پرویز رشید کی یقین دہانی کے باوجود اس وقت تک ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا جب تک وزیر اعظم محمد نواز شریف ایوان میں آکر وضاحت نہیں کرتے ، اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے رات گئے سوالنامہ تیارکیا گیا ۔شاہ محمود قریشی آج اجلاس میں سوالنامہ پیش کریں گے، بظاہر سید خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن جنگ نہیں جواب چاہتی ہے، وزیراعظم کو ایوان پر اعتماد ہونا چاہیے لیکن اپوزیشن کے ’’عزائم‘‘ کے بارے میں کوئی بات حتمی طور نہیں کہی جا سکتی ممکن ہے جب وزیر اعظم ایوان خطاب کر چکیں تو اپوزیشن اس خطاب پر ہی عدم اطمینان کا اظہار کر دیں ۔ جہانگیر ترین جن کا پانامہ لیکس کے حولے سے بھی نام آیا ہے برملا یہ بات کہہ رہے ہیں ،اپوزیشن وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں موجودگی نہیں سوالات کے جواب چاہتی ہے ،بہر حال اجلاس میںوزیراعظم محمد نواز شریف کی پارلیمنٹ میں وضاحت تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ،سینٹ میں بھی اپوزیشن نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا تاہم سینٹ کے اجلاس کی کارروائی جاری رہی البتہ چوہدری اعتزاز احسن نے قاید ایوان راجہ محمد ظفر الحق سے کہا ہے کہ ’اگر وزیراعظم قومی اسمبلی میں آئیں گے تو انہیں سینٹ میں بھی آنا پڑے گا۔ منگل کو سینٹ میں صادق خان کو لندن کا میئر منتخب ہونے ہونے پر مبارکباد دی تاہم مشاہداللہ نے صادق خان کی مخالفت کرنے پر عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا ۔
پارلیمنٹ کی ڈائری

epaper

ای پیپر-دی نیشن