صلۂ شہید کیا ہے تب و تابِ جاودانہ
پاکستان پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدر اور رکن قومی اسمبلی فریال تالپور نے جوشِ خطابت میں اپنے بھتیجے بلاول بھٹو زرداری کو شہید کہنے پر معذرت کر لی ہے۔ سنا ہے ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی اور خبر کے مطابق فریال تالپور کی پولیٹیکل ایڈوائزر شہلا رضا کی جانب سے احساس دلانے پر بیچاری فریال تالپور پریشان ہو گئیں اور فوراً معذرت کر لی۔ نجانے معذرت کیوں کی اور معذرت کس سے کی۔ شہلا رضا سے یا بلاول بھٹو زرداری سے؟ یہ مصرعہ بلاول کے لئے ہے۔ اسے فریال تالپور اور شہلا رضا بھی پڑھ سکتی ہیں
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پھوپھو فریال تالپور کو مشورہ دیا کہ وہ خطابت کے دوران احتیاط کیا کریں۔ دیکھیں پھوپھو صاحبہ اپنے بھتیجے کی نصیحت پر کتنا عمل کر سکتی ہیں۔ زبان پھسل جاتی ہے۔ آدمی خود بھی پھسل جاتا ہے لیکن اس کے بعد سنبھلنا اور اپنے آپ کو سنبھالنا بہت اہم ہوتا ہے۔
فریال نے کوئی ایسی نامناسب بات نہیں کی۔ بلاول نے خود کہا کہ میں شہیدوں کی اولاد ہوں اور شہادت ہماری میراث ہے۔ بی بی شہید کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا تھا کہ میں بھی یہیں دفن ہوں گا۔ یہ بات بھی اس موقعے پر زرداری صاحب نے کہی تھی یا کسی جیالے نے کہی تھی کہ یہاں دفن ہونے کے لئے شہید ہونا ضروری ہے؟ حالات کو بی بی کی شہادت کے بعد زرداری نے بڑی ہمت اور ذمہ داری سے سنبھالا۔ انہوں نے پارٹی کی حفاظت بھی کی۔ ان کی یہ حکمت عملی میرے لئے بہت بڑی سیاسی معرکہ آرائی ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بھٹو کا نام دیا۔ انہوں نے بلاول، بختاور اور آصفہ کو زرداری سے پہلے بھٹو کی نسبت سے مالامال کیا۔ زرداری صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا۔ بلاول اگر اپنے ماضی اور مستقبل کو یکجا کر لے تو یکتا ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو کی تقریر میں اب اپنی ماں اور نانا کی خطابت کی تاثیر شامل ہو رہی ہے مگر خوشی یہ ہے کہ بلاول نے تقریر کے انداز کو مختلف رکھا ہے۔ ان کا لہجہ بڑی عمر کے دوسرے سیاستدانوں سے انوکھا ہے۔ اسے بات کرنا آتی جا رہی ہے۔ مجھے شہلا رضا نے بتایا تھا کہ وہ بھی بلاول کو اردو زبان کی باریکیاں سمجھا رہی ہے۔ شہلا رضا تو اہل بیت کے رتبے اور مقام کو بہت جانتی ہے اور اس حوالے سے شہادت کا جو منصب اور مقام ہے اسے بھی پہچانتی ہے۔ شہید تو زندہ تر ہوتا ہے۔ یہ زندگی کی تابندگی ہے کہ اللہ نے فرمایا ’’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘‘
میں پچھلے دنوں ایک ہفتے کے لئے کربلا میں مقیم رہا۔ اس عہد کربلا میں ہمیں اماموں کے امام حضرت مولا حسینؓ کی قربانی اور صبر کو دل میں آباد رکھنا ہو گا۔ صبر کا اجر ہوتا ہے اور قربانی کی کہانی کے کئی عنوان ہیں۔
بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم بنیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر زرداری بن گئے۔ ہر طرف یہ نعرے پیپلز پارٹی کے اجتماعات میں گونجتے ہیں۔ بلاول خود یہ نعرے لگواتا ہے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، زندہ ہے بی بی زندہ ہے، کبھی کبھی یہ نعرہ بھی لگ جاتا ہے…
بی بی ہم شرمندہ ہیں تیرے قاتل زندہ ہیں
بلاول نے علی حیدر گیلانی کی بازیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے 2016ء کو معجزوں کا سال قرار دیا۔ یہ تو معجزہ نہیں ہے۔ علی حیدر گیلانی کی گمشدگی اور بازیابی کسی پلاننگ کا حصہ ہے۔ بلاول کوئی اور معجزہ بتائیں، اپنا مذاق نہ اڑائیں۔
بلاول نے آزاد کشمیر کے انتخابات کو اہم اور تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا اگر یہاں سے ن لیگ جیت گئی تو ایسا لگے گا کہ نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی کی حمایت کی گئی ہے۔ مودی وہ شخص ہے جو ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے جسے کئی ملک ویزہ دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف آزاد کشمیر میں کیا بات کرتے ہیں؟ پانامہ لیکس کے حوالے سے بلاول نے کہا کہ ہمارے سوالات کا جواب نواز شریف کو دینا ہو گا۔ لگتا ہے ان کی کشتی لیک ہو کر ہچکولے کھا رہی ہے۔
ہم جب گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک نعرہ بڑے زور شور سے لگایا جاتا تھا
گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو
اس بات کو بہت سال ہو گئے ہیں، تب ابھی بلاول پیدا ہی نہیں ہوا ہو گا۔ یہ نعرہ بلاول نے بھی لگایا مگر یہ دیوار تو دیوار گریہ بن چکی ہے۔ نہ گرتی ہے نہ کوئی اس کے سائے میں بیٹھ سکتا ہے۔ بلاول نے اس نعرے کو ایک نیا رنگ دیا ہے…
گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو
مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ہم بلاول بھٹو کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ انہیں بلاول کا طرز کلام بچگانہ لگتا ہے مگر خود وہ جب بولتے ہیں تو ان کے لہجے پر بھی بچپنا طاری ہوتا ہے۔ پچپن برس کی عمر میں بھی انہوں نے بچپن کا بانکپن اپنے انداز گفتگو میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بلاول کو نہ سیاست کا پتہ ہے اور نہ انہیں پاکستان کی تاریخ سے کوئی دلچسپی ہے۔ کون ایسا سیاستدان ہے جو دونوں باتوں پر عبور رکھتا ہو؟ پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے کیلئے کچھ اور طرح کی کوالیفکیشن کی ضرورت ہے؟ یہ بات ان ممبران اسمبلی سے پوچھی جائے جو ایوانوں میں کوئی بات نہیں کرتے۔ پورے سیاسی منظرنامے پر ایک نام بھٹو کا چمکتا ہے، اسے بلاول بھٹو کو ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔