• news

ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کی بے نام قبریں بھارتی بربریت کی منہ بولتی تصویر

سرینگر (خصوصی رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم جاری ہیں اور اندازوں کے مطابق 70 ہزار سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ بھارتی فوج کی جارحیت کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے بھارتی فورسز اپنی کارروائیوں کے دوران کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد بسا اوقات ان کی نعشیں ورثاء کے سپرد کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور انہیں تجہیز و تکفین کے بغیر دفنا دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں اور کئی دہائیوں تک ان کا پتہ نہیں چلتا۔ برطانوی اخبار ’’دی گارڈین‘‘ کی 2012ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں بڑی تعداد میں اجتماعی قبریں موجود ہیں۔ مضمون میں ایک مقامی وکیل کی جانب سے نامعلوم قبروں کی نشاندہی کی کوشوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اپریل 2010 میں راجپوتانہ رائفلز کے ایک بھارتی میجر ایک دور دراز پولیس پوسٹ پر پہنچا۔ میجر اویندر سنگھ جلدی میں تھا۔ پیر پنجال رینج کے علاقے میں پولیس آفیسر نے رپورٹ کیا کہ گذشتہ رات 3 افراد کو مچل سیکٹر میں مارا گیا ہے۔ پھر پولیس آفیسر نے میجر سے پوچھا ان کی نعشیں کہاں ہیں۔ میجر نے جیپ میں سوار ہوتے ہوئے جواب دیا انہیں جہاں مارا گیا تھا وہیں دفنا دیا گیا۔ اس طرح کے واقعات کشمیر میں غیرمعمولی نہیں ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ فوجیوں والی ریاست بن چکی ہیں۔ وہاں پر 17 افراد پر ایک بھارتی پیرا ملٹری یا ملٹری کا اہلکار موجود ہے۔ مچل سیکٹر جہاں پر میجر سنگھ کے اہلکاروں نے آپریشن کیا تھا وہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ کنٹرول لائن 1972ء میں بنائی گئی تھی۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر اسرائیلی ٹیکنالوجی کی مدد سے مہلک اور خطرناک باڑ لگا رکھی ہے۔ الیکٹرک جنگلے اور موشن ڈیٹکٹر بھی لگے ہوئے ہیں۔ 30 اپریل 2010ء کو سرینگر میں بھارتی فورسز کے ترجمان نے بھی میجر سنگھ کے واقعہ کی تصدیق کی تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل برار نے بتایا کہ 3 پاکستانی افراد کو مارا گیا تھا۔ تاہم کچھ روز بعد مچل سے 30 میل دور پنزالا پولیس سٹیشن میں 3 کشمیری خاندانوں نے رپورٹ درج کرائی کہ انکے بیٹے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ یہ نوجوان 19 سالہ محمد‘ 20 سالہ ریاض اور 27 سالہ شہزاد تھے۔ ان میںسے ایک سیب کے باغوں میں کام کرتا تھا۔ دوسرا چرواہا اور تیسرا محنت کش تھا۔ یہ تینوں 28 اپریل سے لاپتہ تھے۔ کچھ روز میں اس واقعہ کی اطلاع انسانی حقوق کیلئے سرگرم وکیل پرویز امروز تک پہنچی جس نے اس پر کام شروع کیا۔ پرویز امروز دو دہائیوں سے سرینگر ہائیکورٹ میں لاپتہ ہونے والے کشمیریوں کے اہل خانہ کی درخواستوں پر انکے پیاروں کی میتیں تلاش کرنے میں مدد کر رہا ہے۔ یہ وہ کشمیری ہیں جو بھارتی فوج کی حراست میں مارے جاتے ہیں اور بھارتی فوج انہیں مار کر بغیر کسی اطلاع کے کہیں بھی دفنا دیتی ہے۔ کشمیری شہریوں کی شکایات کے اعداد و شمار سے پرویز امروز نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارتی فوج نے اب تک 8000 غیر جنگجو کشمیریوں کو لاپتہ کیا ہے۔ پرویز نے بتایا کہ کسی کا لاپتہ ہونا اس حوالے سے زیادہ خوفزدہ کرنے والی بات ہے کہ اسے شہید کر دیا جائے۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت فوج اور پیرا ملٹری فورسز کو ٹرائل سے مکمل طور پر استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ معلومات تک رسائی کے حق کے تحت پرویز نے معلومات حاصل کیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ سینکڑوں بھارتی فوجی قتل‘ زیادتی اور تشدد میں ملوث ہیں اب تک کسی ایک کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ دوسری طرف کشمیری شہریوں کے ساتھ جموں اینڈ کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں حفظ ماتقدم کے تحت 2 سال جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 20 ہزار افراد بغیر کسی جرم کے مستقبل میں تخریبی کارروائی میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار ہیں۔ پرویز نے اقوام متحدہ کی توجہ بھی اس جانب دلائی اور ماورائے عدالت قتل کے خصوصی رپورٹر کرسٹوف ہینز نے اس سال بھارت کو متنبہ کیا کہ ایک جمہوریت میں اس طرح کے قوانین کی جگہ نہیں اور انہیں ختم کیا جائے۔ انسانی حقوق کیلئے سرگرم پرویز کو اپنی سرگرمیوں کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے۔ 1992ء میں پرویز کا ایک ہندو ساتھی مارا گیا۔ 3 سال بعد امروز پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔عدالت سے گھر جاتے ہوئے ان پر فائرنگ کی گئی مگر وہ بچ گئے۔ ایک عسکریت پسند گروپ نے دعویٰ کیا کہ غلط شناخت کی وجہ سے ان پر حملہ کیا گیا۔ 1996ء میں بھارتی فورسز نے پرویز امروز کے دوست اور ساتھی وکیل جلیل اندرابی کو اغوا کیا اور 3 روز بعد اس کی تشدد زدہ نعش ملی۔ امروز نے کئی سال شادی سے اس بنا پر گریز کیا کہ اسے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ 2002 میں امروز کی نگرانی میں تعلیم پانے والا نوجوان خرم پرویز ایک دھماکے میں زخمی ہو گیا۔ اسکا ڈرائیور اور خاتون آسیہ جیلانی جاں بحق ہوئے۔ 2005ء میں امروز کو لیوڈووک ٹراریکس انٹرنیشنل ہیومن رائٹس پرائز دیا گیا۔ یہ ایوارڈ سب سے پہلے نیلسن منڈیلا کو دیا گیا تھا۔ بھارت کی جانب سے ویزا نہ دیئے جانے پر وہ یہ خود جا کر وصول بھی نہ کر سکے۔ لوگ امروز کے پاس اپنے مسائل لاتے رہے۔ 2008ء میں امروز نے اپنی نئی جدوجہد شروع کی۔ کشمیر کے 23 میں سے 2 اضلاع کے سروے کے بعد مقامی لوگوں نے انہیں بے نشان قبریں دکھائیں۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ ان افراد کی قبریں تھیں جنہیں بھارتی فورسز کی حراست میں مارا گیا اور یہ تمام لوگ مقامی تھے۔ امروز نے 1000 کے قریب مقامات پر بے نشان قبروں کی تلاش جاری رکھی۔ یہ بات حیران کن تھی کہ بھارتی قانون کے مطابق ہر موت کی پولیس کیلئے تحقیق کرنا ضروری ہے اور مرنے والے کی شناخت کرنا بھی معدوم ہے تاہم بیمار گاؤں کے عطا محمد خان نے بتایا کہ کیسے رات کے اندھیرے میں اس سے 203 نامعلوم افراد کو دفنانے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح کچامہ گاؤں میں بھی 235 بے نشان قبروں کی نشاندہی کی گئی۔ بجھاما میں 200 نعشوں کو دفنایا گیا۔ ’’فیکٹس انڈر گراؤنڈ‘‘ نامی رپورٹ میں امروز نے بتایا کہ اندیشہ یہ ہے کہ کئی لاپتہ افراد کو مار کر خفیہ مقامات پر دفنایا گیا ہے۔ بعدازاں امروز نے رخسانہ سے شادی کی۔ ان کی ایک بیٹی 12 سالہ زینش اور 7 سالہ بیٹا توقیر ہے اور یہ خاندان کراسپورہ میں رہائش پذیر ہے۔ اس گھر میں بھی ان پر حملہ کی کوشش کی گئی اور فائرنگ کی گئی۔ ایک گولی امروز کے بیٹے کے قریب سے گزری، دستی بم بھی پھینکا گیا۔ مقامی لوگوں نے امروز کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ پیرا ملٹری اور پولیس کی سپیشل ٹاسک فورس کی دو گاڑیاں واپس چلی گئیں۔ رخسانہ نے بتایا وہ ہمیں مارنے آئے تھے ہمیں تحفظ چاہئے۔ اس حملے کے بعد ہیومن رائٹس واچ نے بھارت سے پرویز امروز کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا مقدمہ یورپین پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا۔ پرویز نے بتایا میں خوفزدہ تھا مجھے ڈراؤنے خواب آتے تھے تاہم میں نے سوچا خاموش رہنا جُرم ہے۔ امروز اور ان کی ٹیم نے اپنی کوششیں دوگنا کر دیں اور باندی پورا، بارہمولا اور کپواڑہ کے 3 اضلاع کے 55 دیہات تک اپنا کام پھیلا دیا۔ بے نشان اور اجتماعی قبروں کی تعداد 2700 تک پہنچ گئی۔ ان بے نشان قبروں میں دفن کی گئی میتوں کی تعداد 2943 ہے اور ان کا 80 فیصد نعشیں بے شناخت ہیں۔ امروز نے بتایا کہ یہ وہ خوفناک تصویر ہے جو کوئی سامنے نہیں لایا۔ یہ جنگی جرائم کے ثبوت ہو سکتے ہیں۔ کون مارا گیا، کس نے مارا اور کس نے انہیں دفن کیا۔ ریاستی ہیومن رائٹس کمشن نے بالآخر انکوائری پر اتفاق کیا۔ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت پولیس نے بتایا کہ 3 اضلاع میں 2683 کیسز سامنے آئے۔ امروز کی ٹیم نے مزید 2 اضلاع راجوری اور پونچھ میں کام کیا تو 3844 مزید قبروں کے متعلق معلوم ہوا اور یہ تعداد 6 ہزار سے بڑھ گئی۔ستمبر 2011 میں ریاستی ہیومن رائٹس کمشن نے اعلان کیا کہ امروز کی دریافت درست ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ شناخت نہ ہونے والی نعشیں لاپتہ ہونے والے افراد کی ہوں۔ اسی سال اقوام متحدہ نے بھارت کو خبردار کیا کہ کشمیری خاندان سچ جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ لاپتہ ہونیوالے کی نعش ملنے پر اسکے لواحقین کا یہ حق ہے کہ انکے پیارے کا جسد خاکی انکے حوالے کیا جائے۔ نادیھال کے افراد کے لاپتہ ہونے کے بعد ایک عینی شاہد فیاض وانی نے امروز کی ٹیم کے رکن کو بتایا کہ بھارتی فوج نے انہیں نوکری کی پیشکش کی تھی۔ لاپتہ ہونے والے افراد نے ایس پی او بشیر لون کیخلاف شکایت درج کرائی کہ اس نے اعتراف کیا ہے 9 فوجیوں نے 3 افراد کو انعام کے حصول کیلئے گولیاں ماریں، 28 مئی 2010کو تین نعشیں ایک بے نام قبر سے نکالی گئیں جن کی امروز پہلے ہی نشاندہی کر چکا تھا۔ لواحقین نے کپڑوں سے ان تینوں کی شناخت شہزاد، ریاض اور محمد کے نام سے کر لی۔ نادیھال کی ’’رقم کیلئے مارنے‘‘ کی یہ کہانی منظر عام پر آنے سے علاقے میں غم و غصہ کی لہر پھیل گئی، ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر اس کیخلاف احتجاج کیا۔ ان احتجاجی مظاہروں میں 100 سے زیادہ افراد مارے گئے جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی قابض بھارتی حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق ان مظاہروں کے دوران کشمیری نوجوانوں اور بچوں سمیت 3500 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ 2011 میں امروز نے اس حوالے سے انویسٹی گیشن شروع کی کہ بھارت نے کس طرح مظاہروں کو ختم کرایا۔ امروز نے رہا ہونیوالوں کے بیانات ریکارڈ کئے۔ اکثر نوجوانوں نے بتایا کہ انہیں زبردست تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آزاد میڈیکل ایگزامینیشن نے بھی تشدد کی تصدیق کی۔ ایک نوعمر قیدی نے بتایا ہماری ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں توڑنے کیلئے پستول کے بٹوں سے مارا گیا، ہم روتے رہے۔ ہمارے زخموں پر مرچیں ڈالی گئیں۔ ایک دوسرے سے بدفعلی پر بھی مجبور کیا گیا۔ 50 دیہات پر مشتمل علاقے میں 2 ہزار سے زائد شدید تشدد کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان بے گناہ افراد کو مارنے، الیکٹریکل شاکس، پانی میں ڈبونے، بلیڈوں سے زخمی کرنے، انکے پاخانے کے مقامات میں پٹرول ڈالنے جیسے انسانیت سوز حربے استعمال کئے گئے ہیں۔ ہر 6 میں سے ایک شہری بھارتی تشدد کا نشانہ بنا۔ امروز کے مطابق تشدد کے یہ طریقے ذاتی طور پر چند افسروں کے نہیں لگتے کیونکہ ان تمام کیسز میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن