• news

اغوا کاروں نے بہیمانہ تشدد کیا، جسم سے گوشت کاٹا، 500 کوڑے مارے: شہباز تاثیر

لندن (بی بی سی) سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر نے کہا ہے کہ اغوا کاروں نے مجھ پر بہیمانہ ظلم کئے اور اذیتیں دیں اس کے باوجود خدا کو میری زندگی منظور تھی اور وہی مجھے بچاتا رہا، میرا گوشت جسم سے کاٹا گیا تو اتنا خون بہا کہ ایک ہفتہ بہتا رہا اور زخم بند نہیں ہو رہا تھا، اغواء کار مجھ سے بینک اکاؤنٹ مانگتے رہتے تھے، ان میں رحم نہیں تھا، تین چار دنوں میں مجھے 500 سے زیادہ کوڑے مارے گئے، میری رہائی کے لیے کسی قسم کا کوئی تاوان نہیں دیا گیا، ایک شخص نے مجھے کچلاک پہنچانے تک میری مدد کی، میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے پاس تھا جس کے بعد میں افغان طالبان کے ہاتھوں میں آگیا۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز تاثیر نے بتایا کہ اغوا کاروں نے میری کمر بلیڈوں سے کاٹی۔ پلاس کے ذریعے میری کمر سے گوشت نکالا۔ پھر میرے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن کھپنچے۔ مجھے زمین میں دبا دیا، ایک دفعہ سات دن کے لیے اور ایک دفعہ تین دن کے لیے۔ پھر مزید تین دن کے لیے۔ وہ مجھے بھوکا رکھتے تھے۔ میرے پہرے داروں کا رویہ بہت برا تھا۔ انہوں نے میرا منہ سوئی دھاگے سے سی دیا۔ انہوں نے مجھے سات دن یا شاید دس دن کھانا نہیں دیا۔ مجھے ٹانگ پر گولی ماری گئی۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ وہ میری ہڈی کو نہیں لگی اغوا کاروں نے میرے منہ پر شہد کی مکھیاں بٹھائیں تاکہ میرے خاندان والوں کو دکھا سکیں کہ میری شکل بگڑ گئی ہے۔ شہباز تاثیر نے بتایا کہ مجھے ملیریا ہو گیا لیکن مجھے دوائی نہیں دی گئی۔ ان میں رحم نہیں تھا۔ ان کے دل نہیں تھے۔ میں بس اللہ سے صبر کی دعا کرتا تھا۔ آخر میں میں اتنا سخت ہو گیا تھا کہ میں کہتا جو کرنا ہے کر لو۔ میرے اللہ نے خود ہی اذیت ختم کر دی۔’وہ فلم بنانے کے لیے اذیت دیتے تھے۔ مجھے ایک دن پہلے ہی کہتے تھے کہ تیاری کرو کل یہ ہو گا۔ میں ان سے کہتا کہ کون سی تیاری کروں، کیسے تیاری کرتے ہیں۔ مجھے کہتے کہ کل تمہارے ناخن نکالیں گے۔ میں پوری رات نماز پڑھتا تھا، نماز کے بعد نفل اور نفل کے بعد دعا فجر تک۔ ’مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے جتنا بھی ماریں اللہ نے مجھے اپنی حفاظت میں رکھا ہوا تھا، ایک شیل میں رکھا ہوا تھا۔ اور وہ اس شیل میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ میری رہائی کے لیے کسی قسم کا کوئی تاوان نہیں دیا گیا، میں وہاں سے بھاگ گیا تھا۔ جیل میں مجھے ایک آدمی ملا، اس نے میری مدد کی۔ مجھے کچلاک پہنچانے تک اور کچلاک سے میں نے اپنے خاندان سے رابطہ کیا اور اس کے بعد مجھے آرمی نے لیا اور لاہور پہنچا دیا۔ میں نے پیسے تو نہیں دیئے لیکن جاتے ہوئے میں نے طالبان کے دس ہزار روپے ضرور لیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’مجھے لاہور سے اغوا کار میر علی لے کر گئے جو وزیرستان میں ہے اور میر علی سے مجھے ہر مہینے منتقل کرتے رہتے تھے۔ میں میر علی میں 2014 کی جون تک تھا جب انہی ازبکیوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ انہیں پہلے سے پتہ تھا کہ حکومت اور فوج کی طرف کیا ردِ عمل آئے گا اس لیے انہوں نے مجھے شوال منتقل کر دیا جس کا راستہ شاید دتہ خیل سے جاتا ہے۔ ادھر میں فروری 2015 تک تھا۔ اس کے بعد مجھے گومل کے راستے افغانستان کے علاقے زابل لے جایا گیا۔ وہ جگہیں بدلتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ڈرون حملوں سے میں ڈیڑھ سال تک ایک خاندان کے ساتھ رہا۔ کسی کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں اور شاید افواہ بھی اڑی تھی کہ شہباز تاثیر ڈرون حملے میں مر چکا ہے لیکن الحمد للہ میں بچ گیا تھا۔ یہ اس وقت تھا جبکہ القاعدہ کے ایک سینئر کمانڈر ابو یحییٰ اللبی کو ڈرون حملے میں مارا گیا۔ مجھے تو بہت بعد میں پتہ چلا۔ میں اس کے ساتھ ہی ایک دوسرے کمرے میں تھا۔ جب ڈرون حملہ ہوا تو چھت اور دیوار میرے اوپر گری، لوگ آئے انہوں نے مجھے دیکھا۔ میں ملبے میں دبا تھا، مٹی میں اٹا ہوا تھا لیکن میرا دم گھٹا اور مجھے کھانسی آ گئی۔ ایک ازبکی نے مجھے دیکھا اور کہا کہ ان نعشوں کو ایک گاڑی میں ڈال دو۔ اس طرح اس نے مجھے دنیا سے بھی چھپا دیا۔ میں بہت خوش قسمت تھا کہ میں دو ڈرون حملوں میں بچا۔ ایک جیٹ حملے میں میں بم گرنے کی جگہ سے صرف سو میٹر دور تھا ، مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ کے سامنے کس طرح زندہ سلامت بیٹھا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ازبکیوں کی بیعت کی تھی افغان طالبان کے ساتھ تھے جب یہ اعلان ہو گیا کہ ملا محمد عمر کی وفات ہو چکی تو ان لوگوں نے کہا کہ افغانی طالبان کی کوئی جائز حیثیت نہیں رہی۔ خلافت کا اعلان شام اور عراق میں ہو چکا، ابو بکر البغدادی خلیفہ ہے، امیر ہے ہم اس کی بیعت لیں گے۔ اس پر ان میں تنازع ہوا۔ افغان طالبان یہ سمجھتے تھے کہ امیرالمومنین صرف افغان طالبان میں سے ہو سکتا ہے اور اسے پٹھان ہونا چاہیے، اس کے علاوہ ان کے لیے سب کچھ ناقابلِ قبول ہے۔ جب ازبکیوں نے اعتراض کیا تو انہوں نے پورے گروپ اور ازبک قیادت کو ختم کیا۔ تین دن وہاں صرف موت تھی۔ مجھے وہاں سے بھاگنے کا موقع ملا اور میں بھاگ گیا۔ مجھے پہاڑ پر چڑھتے ہوئے افغان طالبان نے پکڑ لیا، وہ سمجھے کہ میں ازبک ہوں۔ وہ مجھے مارتے ہوئے نیچے لے آئے۔ ایک قاضی آئے اور انہوں نے ہمیں چھ مہینے سے دو سال تک کی سزائیں سنائی گئیں اور ایک جیل میں بھیجا گیا۔ ادھر مجھے ایک افغانی طالبان ملا۔ اس نے میری مدد کی۔ اس میں تھوڑا وقت لگا۔ دو تین مہینے۔ لیکن اس نے میرے لیے ایک راستہ کھولا، جس کی وجہ سے میں اس جیل سے نکلا اور افغانستان سے کچلاک موٹر سائیکل پر آیا۔ اس میں مجھے 8 دن لگے۔ شہباز تاثیر نے بتایا کہ بازیاب ہونے کے بعد سب سے پہلے میں نے نہاری کھائی جو سچ ہے۔ کچلاک ریسٹورنٹ میں کچھ نہیں کھایا۔ آرمی کمپاؤنڈ میں آیا تو انہوں نے کہا کچھ چائے، کافی پانی تو میں نے کہا نہاری۔ ممکن ہو تو لاہور سے منگوا دیں نہیں تو میں آپ کی بلوچی نہاری بھی کھانے کو تیار ہوں۔ مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بہت عرصے کے بعد ایک ایسے مقام پر پہنچا ہوں جہاں میں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتا ہوں۔ اس لیے میں بس دوستوں سے مل رہا ہوں۔ خاندان کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں۔ دریں اثنا امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں شہباز تاثیر نے کہا کہ میرے بدلے 25 قیدیوں کی رہائی مانگی گئی لیکن میرے بدلے کسی کو رہا نہیں کیا گیا۔ اغوا کاروں نے مطالبات پیش کئے تو اندازہ تھا کہ ناممکن ہے۔ افغان طالبان نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ میں قیدی ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن