پٹھانکوٹ حملہ، عوامی حلقے مودی حکومت اور اسکے پاکستان سے تعلقات پر زیادہ ناراض نہیں: بی بی سی
لندن (بی بی سی) نریندر مودی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر عوام کی رائے جو بھی ہو لیکن پٹھانکوٹ پر حملے کی وجہ سے مودی حکومت کے خلاف عوامی حلقوں میں زیادہ غصہ نہیں پایا جاتا۔ حملے کے کچھ ہفتے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر بھی بہت ناراضگی نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے مودی کی ڈگری کے معاملے پر ان کی حکومت پر حملے کئے لیکن وہ پٹھانکوٹ پر حملے سے ایک ہفتہ پہلے لاہور کے ان کے دورے پر ان کا گھیراؤ نہیں کر سکے۔ مودی حکومت پاکستانی سفارتکاروں کے دہلی میں کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کے مسئلے کو بھی طول نہیں دیتی اور پاکستان ائیر بیس حملے کی تحقیقات کر رہا ہے، لیکن امکان ہے کہ اس ڈرامے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ گلی محلوں میں کا کوئی آدمی آپ کو یہ تو ضرور کہتا ملے گا کہ اس اچھے دن کا انتظار ہے لیکن اسے پاکستان کے معاملے پر کوئی شکایت نہیں ہے۔ اسکی واضح وجہ یہ ہے کہ بھارت میں عام لوگ پاکستان کی بہت فکر نہیں کرتے۔ بھارت پاکستان کی بات چیت ہو رہی ہے یا نہیں ہو رہی ہے، اسکی پرواہ نہیں کرتے۔ جو شخص 2002ء میں فسادات کے بعد گجرات کا انتخابات ’میاں مشرف‘ کی مخالفت کرکے جیتا ہو، وہ وزیراعظم کے عہدے کی مہم میں پاکستان کے ساتھ معاملات بات چیت سے حل کرنے کی بات کر رہا تھا۔ مودی نے کہا تھا کہ غربت کیخلاف جنگ میں بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ پاکستان پر تنقید اور جنگ جیسا ماحول بھارتی رائے دہندگان کیلئے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اگلی بار جب ’سیکولر حکومت‘ آئے تو اسے بھی حساس موضوعات پر نئی پہل کرتے ہوئے بغیر کسی خوف کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہندو توا بریگیڈ کی طرح وہ بھی نریندر مودی کی پاکستان پالیسی کی مثال دے سکتے ہیں۔