اپوزیشن نے پی ٹی اوآر پرکمیٹی کی تجویز قبول کرلی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن) متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کا بائیکاٹ ختم کر دیا ہے متحدہ اپوزیشن آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریگی جبکہ اپوزیشن نے منگل کو سینٹ کے اجلاس میں شرکت کی۔ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیرِ اعظم کی تجویز پر تشکیل دی جانیوالی پارلیمانی کمیٹی میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے پارلیمان میں حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنمائوں کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہا اپوزیشن تحقیقات کے معاملے پر حکومت سے بات چیت کیلئے تیار ہے۔ وزیرِاعظم نے کرپشن کے تدارک کے لیے جس پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی بات کی ہے، حزبِ مخالف اس کے لیے اپنے نمائندے مقرر کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ انہوں نے کہا حزبِ اختلاف نے کمیٹی باہمی مشاورت کے بعد تحقیقات کے لیے ٹی او آر یا ضوابط کار بنائے اور جس فورم پر چاہے تحقیقات کرا لی جائیں۔ انہوں نے کہا وزیراعظم بڑی دیر کے بعد ایوان میں آئے ہیں جبکہ حزب مخالف کی جماعتوں کا توگھر ہی پارلیمنٹ ہے اور وہ اپنے گھر سے کیسے دور رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم سے جو سوالات پوچھے گئے ہیں انہیں ان کا جواب دینا ہی ہوگا۔ وزیر اعظم سے وضاحت طلب کی گئی ہے 1988سے لیکر 1991تک شریف فیملی نے ساڑھے 14 کروڑ روپے کی رقم ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھجوائی تھی۔ پارلیمنٹ میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں نے پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیز اور ان کے اثاثہ جات کے بارے میں پوچھے گئے سات سوالات کو پیر کو وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خطاب کے بعد اب 70سوالات میں تبدیل کردیا ہے جو اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس میں تیار کئے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم سے آٹھ مختلف معاملات پر 70سوالات کئے گئے ہیں اور وزیر اعظم سے کہا گیا ہے وہ ان سوالات کا تفصیلی جواب دیں۔ وزیراعظم سے پوچھا گیا ہے شریف فیملی نے لندن میں پارک لین میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم بھجوانے کے لیے’’ حوالہ اور ہنڈی‘‘ کا استعمال کیا اور اس ضمن میں ’’حوالہ اور ہنڈی ‘‘کا کاروبار کرنے والے پشاور کے دو افراد نے بیانات بھی دیئے ہیں جن میں کہا گیا ہے شریف فیملی لندن میں جائیداد خریدنے کے لیے پاکستانی کرنسی میں رقم بھجواتی تھی جنہیں بعد میں غیر ملکی کرنسی میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم سے یہ بھی پوچھا گیا ہے لندن میں خریدی گئی جائیداد جن میں پارک لین میں واقع لگژری اپارٹمنٹ جن میں 16، 16اے، 17اور 17اے شامل ہیں کیا وہ بھی ان آف شور کمپنیز کی ملکیت ہں۔ وزیر اعظم سے پوچھا گیا ہے وہ ان چھ آف شور کمپنیز کے بارے میں بتائیں جو شریف فیملی کی ملکیت ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں سے طرف سے وزیر اعظم سے ان بے نامی جائیداد کے بارے میں بھی دریافت کیا گیا ہے جو ان کے خاندان نے بیرون ملک بنائی ہیں جن کی مالیت اربوں روپے میں ہے۔ ان معاملات میں وزیراعظم سے یہ بھی پوچھا گیا ہے وزیراعظم نے 1990 میں بطور وزیر اعظم فیصل بینک سے 3کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا اور قرضے کے حصول کے لیے انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق پارلیمنٹ ہائوس میں سینٹ کے قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن کے چیمبر میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ جس میں شاہ محمود قریشی، چودھری پرویز الٰہی، شیخ رشید، اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور، سید خورشید شاہ، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے سپیکر کی یقین دہانی کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ کا بائیکاٹ ختم کرنے کا اعلان کیا اور تمام اپوزیشن جماعتیں (آج) بدھ سے دونوں ایوانوں میں شرکت کریں گی۔ اپوزیشن دونوں ایوانوں میں 70 سوالات سے متعلق بات کرے گی۔ متحدہ اپوزیشن کے رہنما خورشید شاہ نے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیوں پارلیمنٹ سے بھاگیں گے۔ پارلیمنٹ ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں خطاب بڑے غور سے سنا۔ سپیکر سے ملاقات پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیراعظم کی تقریر پر 70 سوال پیدا ہوئے ہیں۔ آج ایوان میں جائیں گے اور وزیراعظم کی تقریر سے اٹھنے والے نکات پر بات کریں گے۔ وزیراعظم بڑی منتوں کے بعد اسمبلی میں آئے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ کا بائیکاٹ ختم کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم کو اسمبلی سے نہیں بھاگنا چاہئے۔ ہم کیسے اسمبلی سے بھاگ سکتے ہیں ہمارا تو فورم ہی اسمبلی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا وزیراعظم نے کہا کہ وہ اسمبلی کو جوابدہ نہیں، جس پر متفقہ اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ پر وزیراعظم ایوان میں آئے وزیراعظم 7 سوالوں کے جواب نہیں دے سکے۔ حکومت کا ردعمل بتائے گا کہ وہ کتنی سنجیدہ ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے اعتزاز احسن کے سوالات کو وزنی قرار دیا۔ ہم کرپشن اور پانامہ کے چوروں کو بے نقاب کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں، اپوزیشن کا اجلاس آج خورشید شاہ کے چیمبر میں ہوگا۔ آن لائن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج بروز بدھ اجلاس میں شرکت کریں گے اور وزیراعظم نوازشریف کی تقریر پر اپنا ردعمل اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دستاویزی ثبوت کے ساتھ دینگے۔ متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی جانب سے سات سوالات کے جواب نہ ملنے کے بعد مزید 70سوالات تیار کرلئے ہیں ،اپوزیشن نے 12صفحات پر مشتمل نیا سوالنامہ بتیار کرلیا ہے ۔ متحدہ اپوزیشن کے ترتیب دیئے گئے 70سوالات میںاہم سوالات یہ ہیں کہ نواز شریف حکومت وضاحت کرکے کہ ان کے خاندان نے بیرون ملک پیسہ کیسے بھجوایا کیا یہ بات درست نہیں کہ 1995-96ء کی مدت میں مزید تین اپارٹمنٹس خریدے گئے کیا وزیراعظم نے اپنے نابالغ بچوں کے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ؟ 1993 میں پارک لین اپارٹمنٹ کی خریداری کے وقت حسن نواز 17سال کے تھے کیا یہ درست نہیں حسن نواز نے 2004ء میں لندن میں 12فلیٹ خریدے ؟ اپوزیشن کے سوالنامے میں شامل مزید سوالات میں پوچھا گیا ہے وزیراعظم وضاحت کریں ان کے اہلخانہ نے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک پیسے بھجوائے کیا یہ حقیقت نہیں 1988ء سے 1991ء تک 5کروڑ 68لاکھ ڈالرز باہر بھجوائے گئے وزیراعظم نے 1988ء سے لیکر 1991ء تک صرف 887 روپے انکم ٹیکس ادا کیا ہنڈی کے ذریعے تمام رقم باہر بھجوانے کا مقصد کالے دھن کو تحفظ فراہم کرنا تھا وزیراعظم سے پوچھا گیا کیا آپ تسلیم کرینگے 1988ء میں 7 لاکھ ڈالر ز اور عمان بینک شارجہ سے لاہور بھجوائے گئے 1990ء میں نواز شریف نے رمضان شوگر مل کے لئے فیصل بینک سے تیس ملین ڈالرز قرض لیا اور کیا یہ درست ہے پشاور میں حوالہ ڈیلر کے ذریعے شریف فیملی نے رقم غیر قانونی طریقے سے بھجوائی ؟ سوالنامے میں شریف فیملی کے 43 ارکان کے نام بھی دیئے گئے ہیں جن کو ترسیلات زر بھیجی گئی ہیں ان خواتین وحضرات کا تعلق اور پتہ لاہور ہے۔ نواز شریف خاندان کی کچھ آف شور کمپنیوں کا نام بھی دئیے گئے ہیںجن میں فسکول لمیٹڈ ، نیلسن انٹر پرائزز لمیٹڈ ، شیمر آل چڈرون جرسی پرائیویٹ لمیٹڈ ، منر ورا کمپنی اور فلیگ شپ ہولڈنگ شامل ہیں اور پوچھا گیا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ 1993ء میں بطور وزیراعظم یہ آف شور کمپنیاں کھولی گئی اور ان سے استفادہ کیا اور پانامہ لیکس کے مطابق کچھ کمپنیاں آپ کی صاحبزادی مریم نواز کے نام پر ہیں رپورٹس میں عالمی بینک ڈبلیو بی اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی کا حوالہ بھی دیا گیا جن میں اربوں روپے کی رعایت کا ذکر ہے یہ بھی پوچھا گیا ہے لوٹی ہوئی رقوم کو نیوزی لینڈ ، چین ، بیلجئم ، فرانس ، برطانیہ ، امریکہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پراپرٹی خریداری کیلئے استعمال کیا گیا ہے سوالنامے میں مریم نواز شریف اور حسین نواز شریف کی مشترکہ کمپنیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور پوچھا گیا ہے کہ یہ درست نہیں ان کمپنیوں کولندن میں چھ جائیدادیں خریدنے کیلئے استعمال کیا گیا ؟ سوالنامے میں سرور پیلس سعودی عرب جدہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور سوئس بینکوں ، ڈوئچے بینک کے ساتھ سات ملین ڈیل کا ذکر بھی موجود ہے پوچھا گیا ہے کیا یہ بات درست نہیں کہ حسن نے 2008ء میں موزیک فون سیکا کے ایک دوسرے ایجنٹ کو کمپنی ٹرانسفر کی اور اس کی سرگرمیوں کا منظر عام پر آنے والے ریکارڈ میں ذکر نہیں وزیراعظم سے پوچھا گیا ہے کہ یہ حقیقت نہیں کہ 1993ء میں سے آپ کی اہلیہ حسین نواز ، مریم نواز ، حسن نواز پارک لین لندن کے فلیٹس میں رہ رہے ہیں اور کیا یہ بات تسلیم نہیں کرینگے زیورچ کے روڈ لف وگ ملر شریف فیملی کی بیرون ملک لندن پراپرٹی کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں ؟ سوالنامے میں 1992ء سے 1996ء اور 1993 کے ٹیکس ریٹرن ریکارڈ کا بھی ذکر کیا گیاہے ۔ وزیراعظم نواز شریف کے قریبی دوست کے بھتیجے جاوید کیانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ان کے تین فارن کرنسی اکائونٹس کا ذکر بھی موجود ہے اور جعلی اکائونٹس کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں اور اسحاق ڈار کو وزیراعظم کا مالیاتی ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے اور برٹش ورجن جزیرے میں غیر قانونی دولت کا ذکر بھی ہے جہاں اربوںڈالرز ٹرانسفر کئے گئے یہ بھی پوچھا گیا ہے سلیمان ضیاء کے جعلی اکائونٹ میں 20,81,038 ڈالرز کی ادائیگی کی گئی یہ بھی ذکر کیا گیا ہے پانچ لاکھ ڈالرز کی مزید رقم بینک آف امریکہ کی برانچ سے کاشف مسعود قاضی کے اکائونٹ میں نزہت گوہر قاضی کے اکائونٹ سے ٹرانسفر کی گئی ہے جو اسحاق ڈار کی بہن ہیں ؟ حدیبیہ انجینئرنگ کے ڈائریکٹرز کے ناموں کا بھی ذکر ہے اور جعلی اکائونٹس کے ذریعے رقوم کی ٹرانسفر کی تفصیلات ہیں یہ بھی وزیراعظم سے پوچھا گیا ہے 10 فروری 1993ء کو نیویارک میں سارہ شیخ کو 2,42,630 ڈالرز کی ادائیگی کی گئی اور یہ بات کیا صحیح نہیں ہے کہ وہ شیخ سعید کی بیٹی ہیں آخر میں حسن نواز شریف کی فلیٹ شپ سرمایہ کاری کا ذکر بھی موجود ہے اور ان کی ترسیلات زر کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے ہیں ؟اور یہ کہا گیا ہے کہ کیا یہ درست نہیں کہ بطور وزیراعظم پانچ سال کے دوران آپ اور آپ کے خاندان نے اربوں کی پراپرٹی خریدی جن میں ہائیڈ پارک لندن بھی شامل ہے اور آخر میں وزیراعظم نواز شریف سے فیصل بینک سے 1990ء کے دوران اثرورسوخ اور دھونس استعمال کرکے تیس ملین ڈالرز کے قرضے کا بھی پوچھا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کیا یہ نیب کے قوانین کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے انکا ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے حکومتی وزراء کو بھی بتا دیا ہے آج کمیٹی کے نام لیکر آئیں۔ اجلاس ڈھائی بجے میرے چیمبر میں ہوگا اور پارلیمانی کمیٹی کے نام فائنل کرنے کی کوشش کریں گے۔ خورشید شاہ نے سپیکر کو بتایا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرکے آگاہ کریں گے۔ خورشید شاہ نے آج صبح 10بجے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا سپیکر قومی اسمبلی کا اپوزیشن سے رابطہ ہوا ہے۔ رابطے کے بعد اپوزیشن اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی۔ آج دوپہر ڈھائی بجے سپیکر کی موجودگی میں اپوزیشن سے بات چیت ہو گی۔ حکومت کی طرف سے زاہد حامد سمیت 5 وزراء مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کئے گئے ہیں، سیاست میں بات چیت جاری رہتی ہے۔ انشاء اللہ فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔ سات سوال ہوں یا 70کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دھرنے کے دوران بھی معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کر لیا گیا تھا۔ حکومت کھلے دل سے اپزیشن کی ہر تجریز کو سنے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا سروسز چیفس کی مدت 4 سال کرنے کا علم نہیں، نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے سروسز چیفس کی مدت ملازمت 4 سال کرنے کے حوالے سے انہوں نے کسی بھی قانون سازی سے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔
سپیکر رابطہ