افغان حکومت نے حکمت یار سے امن معاہدہ کے مسود ہ پر دستخط کردئیے
اسلام آباد + واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ + اے ایف پی+ رائٹر + اے این این+ نمائندہ خصوصی) افغانستان کے بارے میں چار فریقی رابطہ گروپ نے افغانوں کی زیر قیادت امن و مصالحت کی کوششوں کے لئے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ 19 اپریل کو کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسے حملے کرنے والوں کو اس کے نتائج کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے، گروپ کے آئندہ اجلاس کی تاریخ اتفاق رائے سے طے کی جائے گی۔ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار فریقی رابطہ گروپ کا پانچواں اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری جبکہ افغان وفد کی سربراہی اسلام آباد میں افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے کی۔ پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن اور افغانستان کے لئے چین کے خصوصی ایلچی ڈینگ شی جن اس اجلاس میں اپنے اپنے ممالک کے وفود کے ساتھ شریک ہوئے۔ ماضی میں چار ملکی اجلاس میں افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی اپنے ملک کی نمائندگی کے لئے پاکستان آتے رہے ہیں تاہم اس مرتبہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ چار ملکی گروپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ تشدد سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا اور امن مذاکرات ہی اس کا حل ہیں۔ اجلاس کے دوران قیام امن کی خاطر افغان مصالحتی عمل کے لئے رابطہ گروپ کا اثرورسوخ استعمال کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ رابطہ گروپ نے افغان قیادت کے تحت افغان امن عمل کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی حکومت نے مکمل امن کے قیام کے لئے گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ کے مسودہ پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے تحت حزب اسلامی کے لوگوں کو عام معافی دی جائیگی، افغان جیلوں میں قید پارٹی کے لوگوں کو رہا کیا جائیگا۔ ابھی اس پر افغان صدر نے دستخط کرنے ہیں۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب محمد خان نے کہا ہے کہ معاہدہ کا مسودہ مثبت اقدام ہے۔ حتمی معاہدہ کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے اسکے نتیجے میں امن معاہدہ ہوجائیگا۔ رابطہ گروپ کے اجلاس سے قبل اسلام آباد میں افغان سفیر ڈاکٹر زاخیلوال نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب چونکہ طالبان نے مذاکرات کی بجائے جنگ کو ترجیح دی ہے اور موسم بہار کی آمد پر تشدد کا نیا سلسلہ شروع کر لیا ہے تو اجلاس میں اْن اقدامات پر بحث ہو گی کہ افغان طالبان کے مذاکرات سے انکار کے بعد پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکہ نے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار کے درمیان مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے تشدد کے خاتمے کیلئے ایسے سیاسی مذاکرات میں تمام متعلقہ گروپوں کو شامل ہونا چاہئے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ امریکہ افغانستان میں مقامی قیادت میں مفاہمت کیلئے بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں مفاہمت کیلئے ہونے والی بات چیت کی تفصیلات پر نظر رکھے ہوئے ہے جن میں سب سے ضروری یہ ہے کہ مفاہمت کے عمل میں شریک ہونے والے گروہ تشدد ترک کرنے کا عہد کریں۔ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق ختم کریں اور ملکی آئین کو قبول کریں۔ امریکہ اس حوالے سے کوئی شرائط پیش نہیں کرے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہاکہ انہیں یہ علم نہیں کہ امریکی حکام اس بات چیت میں شریک ہیں یا نہیں لیکن وہ اس عمل پر نظر رکھیں گے۔ امریکی حکام کا مؤقف ہے افغانستان میں مفاہمت کا عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے سابق امریکی سفیر ریان سی کروکر کے اس بیان کی حمایت کی جس میں انہوں نے افغان باشندوں کیلئے امریکی ویزوں کی تعداد محدود کرنے کی مخالفت کی تھی۔حزب اسلامی نے ہتھیار ڈالنے کی حکومتی پیشکش قبول کرلی ہے۔ معاہدے کے تحت حزب اسلامی کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا۔ گلبدین حکمت یار نے ہتھیار ڈال کر افغان امن معاہدے میں شامل ہوکر افغان حکومت کے تمام امن مفاہمت نکات سے اتفاق کیا۔