ٹی او آر کیلئے حکومت اور اپوزیشن کا 12 رکنی کمیٹی بنانے پر اتفاق
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ) حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے پانامہ لیکس‘ آف شور کمپنیوں‘ سیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے قرضے معاف کرانے اور بدعنوانی کی تحقیقات کا متفقہ طریقہ کار (ٹی او آر) طے کرنے کے لئے 12رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔ پانامہ لیکس کے معاملے پر سپیکر چیمبر میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے۔ جس کے بعد متفقہ ٹی او آر بنانے کیلئے 12رکنی پارلیمانی کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا۔ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت کے 6 اور اپوزیشن کے بھی 6ارکان شامل ہونگے۔ تجاویز مرتب کرنے کیلئے کمیٹی کو دو ہفتے کا وقت دیا جائیگا جو کام مکمل کرکے ٹی او آر طے کرکے ایوان میں پیش کرے گی۔ کمیٹی اپنے قیام کے بعد 15دنوں میں رپورٹ دے گی۔ کمیٹی میں فی الحال ایم کیو ایم اور شیخ رشید کو شامل نہیں کیا گیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ وزیراعظم نے سپیکر کو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔ قومی اسمبلی کی اجازت کے بعد کمیٹی کام شروع کر دے گی۔ پارلیمانی کمیٹی کیلئے حکومتی نام ابھی فائنل نہیں ہوئے۔ حکومت اتحادیوں سے مشاورت کے بعد نام فائنل کرے گی۔ دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے 6 نام دے دیئے ہیں جن میں اعتزاز احسن، آفتاب شیر پاؤ، شاہ محمود قریشی، طارق بشیر چیمہ، صاحبزادہ طارق اللہ اور غلام احمد بلور شامل ہیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کا نمائندہ کمیٹی میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جائے گا جب وہ یہ فیصلہ کر لے گی کہ آیا وہ اپوزیشن کا حصہ ہے یا نہیں۔ اس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی‘ حکومتی نمائندوں اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جن میں ٹی او آر بنانے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر غور کیا گیا۔ مذاکرات میں اپوزیشن کی جانب سے سید خورشید شاہ‘ اعتزاز احسن‘ غلام احمد بلور‘ شاہ محمود قریشی‘ اسرار اللہ زہری‘ حکومت کی جانب سے وفاقی وزراء پرویز رشید‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف‘ وزیر قانون زاہد حامد‘ سعد رفیق کے علاوہ شیخ آفتاب‘ محمود اچکزئی‘ حاصل بزنجو جبکہ ایم کیو ایم کے ارکان آصف حسنین اور علی رضا عابدی شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ پارلیمانی کمیٹی اپوزیشن کی سربراہی میں قائم کی جائے۔ حکومتی ارکان کا مئوقف تھا کہ کمیٹی کی سربراہی قواعد کی روشنی میں ہونی چاہئے۔ خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کمیٹی اپنے قیام کے بعد 15 روز میں رپورٹ پیش کریگی۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے 6/6ارکان شامل ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کا فی الحال کوئی سربراہ مقرر نہیں کیا گیا۔ ایم کیو ایم رہنمائوں نے بتایا ہے کہ وہ اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ کمیٹی کی تشکیل کیلئے بل اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ مقدم ہے‘ تمام مسائل پارلیمنٹ میں حل کرنے چاہئیں‘ پارلیمانی کمیٹی کے ٹی او آر سپریم کورٹ کو بھیجے جائیں گے۔ تحقیقات سپریم کورٹ کے ذریعے ہی کرانا ہو گی۔ پارلیمنٹ کے ذریعے مسئلہ حل نہ ہوا تو ہم بھی تحریک انصاف کے ساتھ سڑکوں پر جانے پر مجبور ہونگے۔ پرویز رشید نے کہاکہ پارلیمانی کمیٹی پر سب متفق ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی پانامہ لیکس‘ آف شور کمپنیز سے متعلق ٹی او آر بنائے گی اور الزامات صحیح اور غلط ہونے سے متعلق نظام وضع کرے گی۔ کمیٹی کام مکمل کرکے قومی اسمبلی میں تحریک پیش کرے گی اور اس کی منظوری لی جائے گی۔ پرویز رشید نے کہاکہ کمیٹی ان معاملات کی چھان بین کرے گی اور ان کی تحقیقات کے لئے طریقہ کار بھی وضع کرے گی۔ 12 رکنی کمیٹی کی کارروائی کو قانونی حیثیت دینے کے لئے آج ایک قرارداد کے ذریعے اس کی منظوری لی جائے گی۔ یہ کمیٹی دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی جس کے بعد یہ طے کیا جائے گا کہ ان معاملوں کی تحقیقات کے لئے کونسا فورم استعمال کیا جائے۔ اس بارے میں کوئی شرط نہیں رکھی گئی کہ کمیٹی میں کتنے افراد قومی اسمبلی سے ہوں اور کتنے سینٹ سے۔ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پارلیمانی کمیٹی بنانے کیلئے آج پیش کی جانے والی تحریک کے مندرجات کے مطابق پارلیمانی کمیٹی پانامہ پیپرز سے متعلق پیدا حالات میں تین معاملات کا جائزہ لے گی۔ یہ بدعنوانی‘ کمشن‘ کک بیکس رقم بیرون ملک منتقل کرنے‘ آف شور کمپنیوں کے بارے میں جائزہ لے گی۔ پارلیمانی کمیٹی بنکوں سے معاف کرائے گئے قرضوں کا بھی جائزہ لے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا اپوزیشن کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے چار رہنمائوں نے شرکت کی۔ ہم نے ان سے وضاحت مانگی جس پر ہمیں بتایا گیا کہ ایم کیو ایم پانامہ لیکس کے معاملے پر متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے۔ مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کا ابھی کسی کو سربراہ نہیں بنایا گیا۔ کمیٹی نے ٹی او آرز سمیت سب کچھ طے کرنا ہے۔ یہ کمیٹی مکمل طور پر بااختیار ہو گی جن ٹی او آر پر اتفاق رائے ہو گا وہ چیف جسٹس کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے۔ کمیٹی دو ہفتوں میں ٹی او آر طے کرے گی۔
پارلیمانی کمیٹی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی تعداد پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اجلاس میں 12 ارکان کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فاروق ستار سے تھوڑی دیر پہلے بات ہوئی ہے، ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ انکا نام بھی پارلیمانی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ سپیکر نے ایم کیو ایم کا نام شامل نہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ایم کیو ایم کا نام کمیٹی میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت تناسب سے ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کو شامل کرنے کیلئے دونوں جانب کے ارکان سات، سات کرلیں گے۔ ایم کیو ایم کو کمیٹی میں شامل کرنے کا معاملہ جلد حل کرلیں گے۔ وزیراعظم صاف کہہ چکے ہیں کہ کمشن جہاں سے چاہے تحقیقات کر لے۔ اکثریت نے کک بیکس اور قرضے معافی کے معامات بھی شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دریں اثنا ایم کیو ایم کے وفد نے سپیکر ایاز صادق سے ملاقات کی۔ وفد میں عبدالوسیم، محمدکمال سفیان یوسف، شیخ صلاح الدین، کشور زہرا، مزمل قریشی اور ڈاکٹر نکہت شکیل شامل تھے۔ وفد نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کو بھی پارلیمانی کمیٹی میں نمائندگی دی جائے۔ ایازصادق نے کہا کہ بطور اپوزیشن پارٹی پر ایم کیو ایم کا حق ہے۔ اپوزیشن لیڈر سے اس معاملے پر بات کروں گا۔
اسحاق ڈار