• news

عمران خان کی طرح میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ،شاہد آفریدی کا اعلان

لاہور (نمائندہ سپورٹس+سپورٹس رپورٹر) سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ شکر ہے کہ عمران خان کی طرح میری کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے۔مکی آرتھر تب چل سکتے ہیں اگر اپنے کام سے کام رکھیں۔ورلڈ کپ میں شکست پر عہدے بچانے کیلئے مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔، کمنٹری اور کوچنگ کا ٹیمپرا منٹ نہیں ، سارو گنگولی ”سبزیاں“ کھاتا ہے اور میں ”گوشت“ یہی وجہ ہے کہ وہ ریٹائر ہوگیا اور میں نہیں ہوا۔ کاﺅنٹی کھیلنے جارہا ہوں پھر مستقبل کا فیصلہ کروں گا۔خدا کرے ٹیم میں مجھ سے بہتر کھلاڑی آئیں۔
، عمر اکمل اور احمد شہزاد اپنی غلطیاں دہرا رہے ہیں، کرکٹ کی بہتری کیلئے 80ءکی دہائی سے باہر آنا ہوگا۔ ورلڈ کپ کی شکست پر جو رپورٹ بنی معلوم نہیں کیسے بن گئی، اپنی پوزیشن سنبھالنے کیلئے جھوٹ کا سہارا نہیں لیتا۔ جیت قبول کرتا ہوں تو ہار بھی قبول کرسکتا ہوں، کسی پر الزام لگانے والوں میں سے نہیں ہوں۔ دوسروں کے غم میں شریک ہونا بہت اچھا لگتا ہے۔ میری کوئی آف شور کمپنی نہیں، عمران خان کی طرح جواب نہیں دوں گا کہ آف شور کمپنی نہیں ہے لیکن بعد میں منظر عام پر آگئی، بات یہ ہے کہ میرے بڑے مجھے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاست لوگوں کی خدمت کانام ہے اور وہ کام میں اپنی فاونڈیشن کے ذریعے کررہا ہوں۔دوسروں کی مدد کرنے کے بعد کتنی خوشی محسوس کرتا ہوں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہولناک مناظر دیکھ کر دِل دہل جاتا ہے ، یہی بدحالی دیکھ کر اپنی فاونڈیشن بنانے کا سوچا۔ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں عوام کی امیدوں کا بہت زیادہ دباﺅ ہوتا ہے۔ ورلڈکپ کا وننگ شارٹ یادگار لمحہ تھا، بھارت کے خلاف ایشیا کپ میں لگاتار دو چھکے لگائے کیونکہ دوسرا آپشن ہی نہیں تھا، دوسری گیند کھیلی تو خود بھی یقین نہیں تھا کہ چھکا ہو جائے گا، گیند میدان سے باہر گئی تو لگا میدان میں فرشتے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ہماری ٹیم وسیم اکرم یا عمران خان کے دور کی نہیں ، افسوس ہوتا ہے جب کچھ لوگ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فضول باتیں کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو جب بورڈ میں ملازمت ملتی ہے تو خاموش رہتے ہیں جب ہٹادیئے جاتے ہیں تو ٹی وی چینلز پر آکر ٹیم کی خامیاں بیان کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو بورڈ سے سوائے 8-9 لاکھ روپے تنخواہ لینے کے ایک روپے کا کام بھی نہیں کرتے۔ کرکٹ کے سسٹم میں بار بار تبدیلی سے نتائج درست نہیں ملیں گے، سسٹم کا تسلسل ضروری ہے، پہلے ٹیم سے کھیلنا آسان جبکہ فرسٹ کلاس کھیلنا مشکل ہوتا تھا، مگر ایک وقت آیا کہ ہم نے کرکٹ کیپس ایسے ہی تقسیم کرنا شروع کردیئے، کرکٹ کی بہتری کیلئے ہمیں 80ءکی دہائی سے باہر آنا ہوگا، ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کچھ کھلاڑی سٹار نہیں ہوتے مگر بن جاتے ہیں۔ جن حالات میں ہم بھارت کھیلنے گئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ سارو گنگولی ”سبزیاں“ کھاتا ہے اور میں ”گوشت“ یہی وجہ ہے کہ وہ ریٹائر ہوگیا اور میں نہیں ہوا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کب تک ہوں اس کا فیصلہ جلد ہی کرلوں گا۔ کمنٹری کا ٹیمپرا منٹ ہے نہ کوچنگ کا مستقبل میں بچوں کیلئے اکیڈمی بناﺅں گااور اپنی فاونڈیشن کے ذریعے فلاحی کام کروں گا۔میں کرکٹ کا ایک ہی فارمیٹ کھیلتا ہوں جس کے سال میں 5-6 میچز ہوتے ہیں ، اس لئے فٹنس کیمپ جانے کی ضرورت نہیں، ملک میں ہوں یا بیرون ملک اپنی فٹنس کیلئے ٹریننگ جاری رکھتا ہوں۔ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن آج کل کا ماحول دیکھ کر ان پر شیر کی نظر رکھنا ضروری ہے۔ میک گرا ، بریٹ لی ، مرلی دھرن بہت بڑے نام ہیں، اِنہیں آنکھیں بند کرکے چھکے نہیں لگائے جاسکتے، ایک سیریز میں اِنہیں بھی چھکے لگائے اور دِل کی خواہش پوری ہوگئی۔کھانے بنانے کیلئے تجربات کرتا رہتا ہوں جو کبھی کبھی بہت اچھے ثابت ہوجاتے ہیں۔احمد شہزاد اور عمر اکمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اِن دونوں کھلاڑیوں کا جتنا بڑا حامی میں ہوں اور کوئی بھی نہیں ہوگا ، یہ دونوں اپنی غلطیاں بار بار دہرا رہے ہیں ، ہمیں اِن کے درمیان رہ کر اِنہیں اچھا کھلاڑی بنانا ہوگا۔ اگر وہ خواتین کے ساتھ فوٹو کھنچوارہے ہیں تو یہ ان کی زندگی کا ذاتی معاملہ ہے، وہ گراونڈ میں کیا کارکردگی دکھاتے ہیں ہمیں اس پر توجہ دینی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن