سیاست اور حکومت میں فرق کیوں؟
میں انہیں نہیں جانتا۔ ملتان سے مسز گیلانی مجھے کبھی کبھی بہت اچھے خط لکھتی ہیں۔ اس موبائل زمانے میں خط کی اہمیت کون سمجھے گا؟
کمرے میں چھپ کے میں نے جلائے تھے اس کے خط
پھر راکھ سارے شہر میں کیسے بکھر گئی
وہ بڑی دردمندی سے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتی ہیں۔ میں ان کے سارے خط پڑھتا ہوں۔ فکر اور فکرمندی میں ڈوب جاتا ہوں۔ تازہ خط میں انہوں نے بلاول کی تقریر کا ذکر کیا ہے اور جلسے میں لگنے والے نعروں پہ اعتراض کیا ہے۔ نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت کے بعد نعرہ بھٹو مناسب نہیں ہے؟ مسز گیلانی نے کہا ہے کہ قائداعظم کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے نعرے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ایک ہی لیڈر بھٹو صاحب قائداعظم کے بعد ہماری تاریخ میں آیا تھا مگر اقتدار میں آ کے اس نے دوستوں اور دوسروں کے ساتھ بہت غیر سیاسی اور غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ جمہوری آمریت کی ابتدا پڑ گئی تھی۔ پاکستان کی روایتی سیاست سے ہٹ کر بھٹو صاحب نے بات کی مگر حکومت اسی طرح کی جیسے یہاں کی جاتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اور حکومت میں اتنا فرق کیوں ہے؟ آج بھی روٹی کپڑا مکان کا نعرہ تو زندہ ہے مگر زندہ لوگوں کا کیا حال کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بھٹو صاحب نے اپنوں اور غیروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا۔ انہیں شاید حسنِ سلوک اور بدسلوکی میں فرق کرنا نہیں آتا تھا۔
پھر ان کی زندگی اور سیاسی زندگی میں بھی فرق نہ رہا۔ کوئے یار سے نکلا تو سوئے دار چلا گیا۔ درمیان میں کوئی مقام اسے جچا ہی نہیں۔ نجانے کیا بات ہے کہ میں نے سچائی کے لئے اپنے دل کی گواہی کے لئے مرنے والوں کو بڑے فخر سے دیکھا ہے مگر جو مرتبہ میرے خیال میں تختہ دار پر جھولنے والوں کا ہے جو پھانسی کا پھندہ چوم کر لٹک جانے والوں کا ہے وہ کسی دوسری طرح مرنے والوں کا نہیں ہے۔
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا
آج کل عمران خان کو بھی بہت لوگ اسی طرح دیکھنے لگے ہیں جیسے بھٹو کو دیکھتے تھے۔ بھٹو نے جس دلیری سے اپنے زمانے کے سیاستدانوں کو للکارا تھا وہی کیفیت عمران میںلوگوں کو سنائی دی ہے مگر دونوں شخصیات اور دونوں زمانوں میں بہت فرق ہے۔ اس آواز میں لوگوں نے وہی بازگشت خود بلکہ خود بخود سن لی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ للکارنے والے کو کسی نے پکارنے بھی نہ دیا۔ ہم بار بار کسی کو نجات دہندہ کیوں سمجھ لیتے ہیں۔ شاید اسی لئے لوگوں کو دکھوں سے اب تک نجات نہیں مل سکی۔ دکھ تو کوئی بھی ختم نہ کر سکا۔ یہاں تو جس نے یہ دعویٰ کیا تھا وہ دکھوں میں شریک بھی نہ ہوا۔ یہاں تو دکھوں میں شیئر کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔
مصنوعی مسکراہٹوں والے سیاستدان کیسے کیسے لطف میں کھو گئے۔ لوگ محروم ہی رہے مظلوم بھی بیچارے محکوم جو ہیں۔
صدر زرداری نے کہا قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ابھی حکومت ہو گی اور سیاست 2018ء کے بعد ہو گی۔ جو کچھ نواز شریف کی تقریر کے بعد قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوا۔ اپوزیشن کو نہ فائدہ ہوا نہ نقصان ہوا۔ کچھ دوست کہتے ہیں کہ نقصان عمران خان کو ہوا مگر جسے پتہ ہی نہ ہو کہ مجھے نقصان ہوا ہے اسے کیا نقصان ہو گا؟ یہ تقریر جو دوسرے دن ’’واک اِن‘‘ کے بعد عمران خان نے کی اسی دن ہوتی جب نواز شریف کی تقریر ہوئی تھی تو اس کا فائدہ بھی ہوتا اور نقصان بھی ہوتا۔ آج تو صرف عمران خان کو مزا آیا ہو گا۔ نواز شریف تو ایوان میں تھا ہی نہیں۔ عمران خان کی یہ تقریر بیچارے ایاز صادق نے سنی ہو گی کہ اس کے بعد اس نے کسی دوسرے کو تقریر کی دعوت دینا تھی۔
خورشید شاہ کے سوچے سمجھے واک آئوٹ کا فائدہ مولانا فضل الرحمن کو ہوا کہ جس نے ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کے لئے وزیراعظم نواز شریف سے بہت سی مراعات حاصل کر لیں۔ نواز شریف رقم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں… اس موقع پر وزیراعظم آ گئے اور اس موقعے سے جتنا فائدہ حضرت مولانا اٹھا لیتے ہیں یہ ’’بوجھ‘‘ کوئی دوسرا اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک موقع پر نواز شریف نے خود کسی تقریر میں کہا تھا کہ میرے کانوں میں گونجتا تھا نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو عمران خان کھڑا تھا۔ حضرت مولانا کا کہیں سایہ بھی نہ تھا۔ یہ دیرپا دوستی کا آخری منظر ہے؟ مولانا سے بڑھ کر موقعے سے فائدہ اٹھانے کا ہنر کوئی نہیں جانتا۔
عمران خان دھوکہ کھا گئے جس کو معلوم ہی نہ ہو کہ اس نے دھوکہ کھایا ہے اس کے نقصان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا مگر یہ تو ہے کہ عمران خان اندر سے فنکار آدمی ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ اگلا وزیراعظم ہے؟ وہ وزیراعظم بنے یا نہ بنے اس کی مستی وہ ابھی سے محسوس کرتا ہے۔ اس حوالے سے کوئی اس کا مدمقابل نہیں ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکہ کھایا
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
شہباز شریف بھی بھٹو کو پسند کرتا ہے مگر پریشانی یہ ہے کہ ان کی حکمرانی قائم ہے۔ وہ اسی راستے پر بھٹو کو لیڈر سمجھتے ہیں۔ اس راستے پر کئی ’’مقام‘‘ آتے ہیں مگر شہباز شریف زیادہ ہنر جانتے ہیں۔ ان پر اعتراض ہوتا ہے مگر بھٹو بھی اپنے دوستوں کو اقتدار میں جانے کے بعد کم لفٹ کراتا تھا۔ حصول اقتدار کے لئے جدوجہد کا بہت تھوڑا وقفہ ان کے نصیب میں آیا ہے۔ ان کا یہ جملہ لوگوں کو یاد ہو گا۔ ہم ’’صدر‘‘ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ یہی انداز بھٹو کا تھا۔ زرداری امریکہ جا بیٹھے ہیں۔ وہاں پاکستانی سیاست امریکی سائے میں کرنا پڑتی ہے۔ جہاں تک بلاول کا تعلق ہے وہ اکثر نواز شریف کو للکارتا ہے۔ پچھلے دنوں بلاول نے شہباز شریف کو بھی یاد کیا، نواز شریف کے لئے لمحہ فکریہ؟ بھٹو ہوتے تو زرداری کے لئے یہی کہتے۔