چودھری نثار محمود اچکزئی مولانا فضل الرحمن ایک پیج پر ہیں
محترم شہباز شریف اور چودھری نثار مجھے کچھ باتوں کیلئے پسند ہیں اور… اس کے ساتھ جڑا ہوا جملہ ہر دفعہ کہنا مجھے ناپسند ہے۔ کبھی کبھی شہباز شریف بہت گہری بات کرتے ہیں۔ وہ ہماری معاشرتی خود غرض زندگی میں اپنی ذات کیلئے سوچنے والوں کے لئے بہت اہم ہے۔ ’’اب پوری قوم کو ’’میں‘‘ سے نکل کر ’’ہم‘‘ کی طرف آنا پڑے گا‘‘۔ ہم انفرادی طور پر بھی مخلص ہوں مگر ہمیں اجتماعی طور پر بھی متحد ہونا پڑے گا تو بات بنے گی۔ شہباز شریف نے یہ بات بھی بہت اہم کی۔ ’’قومی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی جگہ صرف جیل ہے‘‘۔ تو پھر انہیں جیل بھجوائیے۔ اختیارات بھی آپ کے پاس ہیں اور اقتدار بھی آپ کے پاس ہے اور بڑی دیر سے آپ کے پاس ہے۔ کچھ لوگ تو سب کے سامنے یہ کام بہت بے خوف ہو کر کر رہے ہیں۔ انہیں کون روکے گا شہباز شریف کے لئے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مستحکم شخصیت کے آدمی ہیں۔ منتظم ہیں تو وہ کچھ کریں۔ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس بات کا تعلق اس جملے کے ساتھ نہیں ہے نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس کے ساتھ یہ نعرہ لگا کے لوگوں کو مولانا فضل الرحمن محمود اچکزئی اور اسفندیارولی یاد آ جاتے ہیں۔ نواز شریف رقم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں؟
شہباز شریف نے بلوچستان کے طالب علموں میں بھی لیپ ٹاپ تقسیم کئے۔ اس سے پچھلے دن شام کو بلوچستان کے طالب علموں کے اعزاز میں ڈنر تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے اس کا اہتمام کیا تھا اس سے پہلے بھی یہاں بلوچ طلبہ و طالبات کے اعزاز میں تقریب کی تھی۔ بلوچ طلبہ و طالبات سے سب کی شناسائی ہے۔
یہاں ڈاکٹر مجاہد کامران نے یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ و طالبات کیلئے بہت اچھا ماحول بنایا ہے ان کیلئے بڑی آسودگی اور آسانی پیدا کی گئی ہے۔ یہاں بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بڑی درد مندی سے خطاب کیا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ایک پاکستان آباد کیا جا رہا ہے۔ ورنہ یہاں قومی ترانہ نہیں سنا جا سکتا تھا۔ قومی پرچم نہیں لہرایا جا سکتا تھا۔ بلوچ طلبہ و طالبات جو پنجاب یونیورسٹی سے پاکستان کی محبت لے کے جاتے ہیں۔ وہ ان کے بہت کام آتی ہے۔
وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے بہت اچھی تقریر کی۔ وہ یونیورسٹی کے معاملات میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور ہر ایسے موقع پر موجود ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ ان کیلئے بہت دوستانہ جذبات رکھتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کی وزیر ذکیہ شاہنواز نے بھی بہت پسندیدہ انداز میں باتیں کیں۔ وہ اپنی بولی میں میانوالی لہجے کی پنجابی قومی زبان اردو اور انگریزی بولنے میں ایک جیسا سلیقہ استعمال کرتی ہیں۔ وہ نیازی ہیں۔ شوہر کی طرف سے بھی نیازی ہیں۔ مجیب الرحمن شامی سجاد میر ڈاکٹر صغرا صدف پرویز بشیر عطاء الرحمن نجم ولی خان اور کئی دوسرے دوست یہاں موجود تھے۔
میں نے بات شہباز شریف اور چودھری نثار کے سانجھے ذکر سے شروع کی تھی۔ وہ شہباز شریف کے دوست ہیں۔ کبھی کبھی چودھری صاحب حکمرانوں سے مختلف حکمران نظر آنے کیلئے کچھ بہتر بیانات دیتے ہیں۔ مگر رہتے تو پھر بھی حکمران ہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں مسلمان رہنمائوں اور پاکستان کیلئے محبت رکھنے والوں کو حسینہ واجد پھانسیاں دے رہی ہیں۔ حق کیلئے تختہ دار پر لٹکنے والے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ چودھری نثار نے وفاقی حکومت کی طرف سے ذاتی طور پر ایک آدھ بیان دیا تھا مگر مولانا مطیع الرحمٰن کی پھانسی پر انہوں نے بات نہیں کی۔ یا مجھے معلوم نہیں ہوا؟
آج کل چودھری نثار نوازشریف کے جان و دل کے ساتھ ہیں۔ مبارک ہو۔ ان کو مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان پسند آیا ہو گا۔ نوازشریف کا دامن بالکل صاف ہے اور آف شور کمپنیوں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مولانا یہ جملہ نہ کستے مگر انہیں شاید بھول گیا کہ آف شور کمپنی عمران خان کی بھی ہے؟ پرویز رشید بھی عمران خان کیلئے حسب معمول مخالفانہ بیان دیتے ہوئے بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ پرویز رشید کہتے ہیں عمران خان جھوٹ نہ بولو مگر پرویز رشید نے آج یہ کہا کہ عمران خان کا جلسہ ناکام ہوا۔ خالی جلسہ خالی کرسیاں۔ انہوں نے عمران کے جلسے میں عورتوں کے ساتھ بدتمیزی پر عمران کو ڈانٹا تھا۔ یہ خواتین اور انہیں چھیڑنے والے حضرات جلسے کے خاتمے سے پہلے عمران خان کی تقریر سننے کیلئے کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ برادرم پرویز رشید کی باتوں پر یقین کرنا اب لوگوں نے چھوڑ دیا ہے۔ ہر بات کا جواب دینا بھی آدمی کو بیزار کر دیتا ہے۔ انہیں معلوم ہے، میں ان سے بڑھ کر عمران کا مخالف ہوں، مگر اب میں کیا کروں؟
اسفند یار ولی صدر زرداری سے مل کر امریکہ سے آئے ہیں۔ کچھ زیادہ ہی خوش ہیں مگر تھکے ہوئے بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم نوازشریف سے استعفیٰ نہیں مانگیں گے۔ وہ نوازشریف سے استعفیٰ مانگ بھی لیں تو نوازشریف استعفیٰ نہیں دیں گے۔ لڑائی کر لیں؟
میں حیران ہوں کہ نوازشریف کو خوش کرنے کیلئے محمود اچکزئی قومی اسمبلی میں کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملے کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ مگر ہم بھی موقع فراہم کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ انہوں نے بمبئی حملوں، بھارتی پارلیمنٹ پر حملے، پٹھان کوٹ پرحملے کا ذکر کیا۔ بہت پرانے واقعے کا دکھ انہیں اب تک نہیں بھولا۔ انہوں نے اندرا گاندھی کے قتل کا ذکر کیا اس سے پہلے کہ شدت جذبات سے اچکزئی صاحب رو پڑتے، ایاز صادق نے انہیں بیٹھنے کیلئے کہہ دیا۔ اچکزئی کو اس ’’درد مندانہ‘‘ تقریر میں آرمی پبلک سکول پشاور کے تڑپتے ہوئے سینکڑوں بچے یاد نہ آئے۔ نہ گلشن اقبال پارک لاہور میں لاشوں کے ڈھیر دکھائی دیئے۔ میں حیران ہوں کہ اسمبلی میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو محمود اچکزئی کی باتوں کا جواب دے۔ کیا سب کو نوازشریف کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے؟ اس سے زیادہ ممبران قومی اسمبلی کے دل میں یہ خیال ہے کہ محمود اچکزئی کے بھائی کو گورنر بلوچستان نوازشریف نے بنایا ہے تو ان کے بھی دو، دو بھائی ہیں۔