• news

نوازشریف، زرداری، فضل الرحمن کا دورہ برطانیہ کیا ’’لندن پلان تھری‘‘ ہے

لاہور (سید شعیب الدین سے) پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد جو سیاسی طوفان کھڑا ہوا تھا اس میں کمی نہیں آئی تو وہ شدت بھی نہیں رہی جس نے حکومت وقت کے چھکے چھڑا دیئے تھے اور ایسا لگتا تھا وہ بد قسمت صورتحال آچکی ہے جہاں تیسری قوت (فوج) دخل اندازی کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتی ہے اور آمرانہ دور کا آغاز ہو جاتا ہے۔ صورتحال کو اس نہج پر پہنچانے اور فوجی مداخلت سے بچنے کیلئے کس نے مثبت کردار ادا کیا، یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ سیاسی عمل اپنی پوری شدت سے جاری ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک دوروں اور ملاقاتوں کے سلسلے عروج پر ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں طویل قیام کے بعد عازم دبئی ہو چکے ہیں اور اپنے والد آصف زرداری سے ملاقات کرنے کے متمنی ہیں۔ پارٹی ذرائع خاموش ہیں کہ وہ اپنی خواہش پر دبئی گئے ہیں یا انہیں طلب کیا گیا ہے۔ حالیہ جلسوں میں جن سے بلاول نے خطاب کیا، ان میں فریال تالپور کی موجودگی نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا آج بھی پارٹی کے فیصلے آصف زرداری کر رہے ہیں یا ایسا کرنے میں بلاول خود مختار ہیں۔ بلاول نے رحمان ملک کو پریس کانفرنس کرنے اور اس میں 3 رکنی کمیٹی بنانے کے فیصلے پر نہ صرف نالائقی کا اظہار کیا تھا بلکہ ان سے وضاحت طلب کی انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ پارٹی حلقے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رحمن ملک کوئی اقدام آصف زرداری کی مرضی و خواہش کے خلاف نہیں کرتے، اسے درست مان لیا جائے تو پھر پارٹی کے فیصلوں میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے درمیان اختلاف موجود ہے جو کسی صورت پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کیلئے مناسب نہیں۔ پارلیمنٹ میں 12 رکنی کمیٹی جس میں متحدہ اپوزیشن اور حکومت کے 6-6 افراد رکن ہوں گے تشکیل پانے کے بعد جس کیلئے ارکان کو نامزد کیا جا چکا ہے، سے اس بحران کے حل کی موہوم سی امید پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعظم ایک بار پھر عازم لندن ہو چکے ہیں اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی لندن پہنچ چکے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق پارٹی رہنما ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ شاید نواز شریف کے قیام لندن کے دوران انکی ملاقات آصف زرداری سے ہو جائے یا انکے مفاہمتی نمائندے کے طور پر فضل الرحمن آصف زرداری سے ملاقات کریں گے اور انہیں حکومت کا ساتھ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ پانامہ لیکس کے پارلیمنٹ میں جانے کے بعد سے اعتزاز احسن کے رویوں اور لہجوں میں واضح تبدیل آ چکی ہے اور اس تبدیلی نے پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ انہیں اس محاذ پر اکیلے لڑنا پڑا تو ایسا کریں گے، یہ اشارہ ظاہر کرتا ہے انہیں پیپلز پارٹی سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی، جے یوآئی (ن) کی قیادت کی لندن موجودگی پر تجزبہ کار اسے ’’لندن پلان تھری‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ آنیوالے 24 گھنٹوں میں ان تینوں لیڈروں کی ملاقات اور افہام و تفہیم کیلئے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ہارڈ لائنر خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، طلال چودھری، عابدشیر علی اور دیگر نے بھی پیپلز پارٹی پر گولہ باری یکدم روکدی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن