بھارت پاکستان کو بائی پاس کرتا وسطی ایشیا تک جائیگا‘ چاہ بہار سے گوادر بندرگاہ متاثر ہوگی: بی بی سی
لندن (بی بی سی اردو ڈاٹ کام) بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چاہ بہار ایران اور بھارت کے درمیان تعلقات بالخصوص معیشت میں حالیہ برسوں میں زیادہ گرمجوشی نہیں پائی جاتی تھی اور اسکی خاص وجہ ایران پر امریکی پابندیوں کے دباؤ کی وجہ سے یہاں غیرملکی سرمایہ کاری میں ہونے والی کمی تھی۔ تاہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت ایران کے دورے پر پہنچے جب ایران سے غیرمعمولی پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ایک نیا ماحول بن چکا ہے اور اس منظر میں ایرانی تیل کا پرانا اور بڑا خریدار بھارت داخل ہوا ہے۔ ایران بھارت کے تعلقات کو دونوں کے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان کا روایتی حریف بھارت امریکہ کے قریب ہورہا ہے جبکہ ایران کے امریکہ کے ساتھ براہ راست تعلقات نہیں اور اسکی پاکستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے اور اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ اس تناظر میں افغانستان اور چین کے ایران اور بھارت سے تعلقات اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سال 2008ء میں بھارت اور امریکہ کے درمیان سویلین جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں ممالک قریب آئے اور اسکے اچھے خاصے اثرات دہلی اور تہران کے تعلقات پر مرتب ہوئے۔ حقیقت میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 2009ء میں بھارت نے امریکہ کے براہ راست دباؤ کے نتیجے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے میں ایران کیخلاف ووٹ دیا۔ ایران کو بھارت کے اس موقف کی توقع نہیں تھی اگرچہ بھارتی حکام اس رائے پر قائم رہے کہ ان کا اقدام اچھی نیت سے اٹھایا گیا تھا۔ امریکہ بحیرہ ہند میں بھارت کے زیادہ سے زیادہ کردار کا خواہاں ہے خاص کر چین کے مقابلے میں اور اس کے ساتھ افغانستان سمیت جنوبی اور مغربی ایشیا میں۔ حقیقت میں یہ عنصر بھارت کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات اور ان ممالک کے درمیان باہمی تعلقات اور بھارت کے خلاف تعاون میں قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ اس فریم ورک میں بھارت کی کوشش ہے وہ پاکستان اور چین کو پیچھے دھکیل دے اور کسی حد تک دونوں کے تعلقات بلخصوص معاشی شعبے میں کمزور یا بے اثر کر دے۔ مودی کے دورہ ایران‘ بھاری سرمایہ کاری اور تعاون کا اعلان اور افغانستان کے تناظر میں ایرانی بندر گاہ چاہ بہار اہم بن گئی ہے۔ یہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے تقریباً سو میل مغرب میں واقع ہے اور یہ بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندروں کے ذریعے تجارت کرنے کا متبادل راستہ فراہم کر سکتی ہے۔ بھارت کو امید ہے چاہ بہار کی صورت میں اسے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اسے شمال جنوب کی راہداری کہتے ہوئے کہا اس راستے سے بھارت کو روس اور اس کے ساتھ یورپ تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ افغانستان کے لئے کراچی اور گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار کا راستہ زیادہ محفوظ اور سستا ثابت ہو گا۔ ایران کو بھی اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بھارتی سرمایہ کاری اور تعاون سے جوان افراد کے لیے ملازمتوں کے موقعے پیدا ہوں گے۔ معاشی فوائد سے ہٹ کر مودی کے دورے کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے۔