مرنے والا ملا اختر منصور تھا‘ ڈرون حملہ کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے: مشیر خارجہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ بی بی سی+ آن لائن) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پانچ دن کے بعد طالبان کے امیر ملا محمد اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی میت پاکستان کے پاس ہے جسے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ مکمل ہونے تک کسی کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ یہ رپورٹ جلد متوقع ہے۔ جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ ہوتی ہے لیکن اس بار ترجمان کے بجائے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے خود میڈیا کو بریفنگ دی جس کا محور ملا اختر منصور کی موت اور افغان امن عمل پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات تھے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ اب افغان امن عمل کا پورا منظر ہی تبدیل ہو کر رہ گیا۔ ملا منصور کی ہلاکت نے افغان تنازعہ کی پیچیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ تمام شواہد سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ ڈرون حملے میں مارے جانے والا ملا اختر منصور ہی تھا جو جعلی شناخت پر سفر کر رہا تھا۔ 18مئی کو چار فریقی رابطہ گروپ کے اجلاس میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ نے اتفاق کیا تھا کہ سیاسی مذاکرات سے حاصل ہونے والا حل ہی سب سے زیادہ قابل عمل ہوگا جس کے لئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں جاری رہنا چاہئیں۔ لیکن امریکہ نے اس مفاہمت کا احترام نہیں کیا۔ اس سے پہلے بھی جولائی 2015 میں تشدد میں کمی کے موضوع پر ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے تھے۔ ایک سال سے کم عرصہ میں امن کا عمل دوبار ناکام ہوا۔ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی خودمختاری کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے احترام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹراور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے اپنی گہری تشویش سے امریکہ کو آگاہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی معاملے کو اٹھائیں گے۔ افغانستان میں تنازعہ کا کوئی فوجی حل موجود نہیں اور گزشتہ 15 برسوں کے دوران طاقت کے استعمال کے باوجود امن کا مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔افغانستان میں میں بڑی تعداد میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس سوچ سے افغانستان مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا جس کے پورے خطہ پر منفی اثرات پڑیں گے۔ افغانستان میں دیرپا امن صرف اور صرف سیاسی حل سے ہی ممکن ہوگا۔ اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کا تعاون باہمی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ افغان حکومت اور چار فریقی ممالک سے قریبی مشاورت کا عمل جاری رکھیں گے۔ ڈرون حملے سے قبل ہمارے ساتھ مشاورت نہیں ہوئی ہے ، تین گھنٹے کے بعد مسلح افواج کے سربراہ کو بتایا گیا اس کے بعد جان کیری نے فون کر کے وزیر اعظم کو بتایا کہ حملے میں ملا اختر منصور ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ دوسرا ڈرون حملہ ہے جو فاٹا سے باہرپاکستان کی حدود میں ہوا۔ بلوچستان میں ہونے والا حملہ ریڈ لائن‘ کی خلاف ورزی ہے۔ افغان طالبان کے نئے امیر کی جانب سے مذاکرات نہ کرنے کے بیان پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ یہ تصدیق شدہ بیان نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ ہمارے جو لوگ رابطوں میں تھے ان کا موقف ہے کہ طالبان مذاکرات کی جانب بڑھ رہے تھے تاہم ملا منصور اختر کی ہلاکت نے اس سارے عمل کو متاثر کیا ہے۔ چار ملکی رابطہ گروپ کے اجلاس میں نئی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ ایران، بھارت اور افغانستان کے حالیہ سہ فریقی معاہدے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مشیر خارجہ کا موقف تھا کہ چاہ بہار ایک متبادل روٹ ہے، گوادر اور چاہ بہار کے درمیان کسی قسم کا مقابلہ نہیں۔ پاکستان اسے خطے میں علاقائی رابطوں کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سو دس ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہم نے آپریشن کے ذریعہ رٹ قائم کی اور دہشتگردوں کی کمر توڑ دی۔ یہ نقصان امداد سے پورا نہیں ہوسکتا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ جو عرصے سے چل رہا تھا ہم نے اسے کامیابی سے رکوایا، حالیہ امریکی ڈرون حملے پر اپنی تشویش سے نہ صرف امریکہ کو باہمی ملاقاتوں اور اجلاسوں میں آگاہ کریں گے بلکہ اس حوالے سے دیگر ممالک کو بھی پاکستانی تشویش اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے گا۔ ملا اختر کی ایران سے پاکستان میں داخل ہونے اور ایران کی اس کی سرگرمیوں سے آگاہی کے حوالے سے سوال پر سرتاج عزیز نے کہا کہ قیاس آرائیوں کی ضرورت نہیں۔ یہ درست نہیں کہ ہماری ایجنسیوں کو اس حوالے سے پتا تھا یا علم ہونا چاہئے تھا۔ انہوں نے امریکہ کا یہ مئوقف مسترد کر دیا کہ اختر منصور کی وجہ سے امن عمل میں پیشرفت نہیں ہو رہی تھی۔ عراق کے معاملہ میں بھی امریکہ کا یہی مؤقف تھا جو بعد ازاں غلط ثابت ہوا۔ بی بی سی کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ یقین دہانی نہیں کروائی جا سکتی کہ افغان امن عمل کے لیے مذاکرات دوبارہ کب شروع ہوں گے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہمارا ایران سے کوئی تنازع نہیں ہمسایوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سرتاج عزیز نے امریکہ کی طرف سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی پر کہا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور اس میں مداخلت کا مشورہ کوئی نہیں دے گا۔ بی بی سی اردو سروس کے ریڈیو پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے مقدمے کا جو نتیجہ نکلے گا وہ سب کے سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کی فوج اور سکیورٹی فورسز حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو طالبان مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے۔ سرتاج عزیز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حالیہ واقعات کے بعد مذاکرات کی جلد بحالی کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ بارہ تیرہ سال سے امریکہ نے لڑائی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کو وقت چاہیے اور اس سلسلے میں سب کو صبر سے کام لینا ہو گا۔ مشیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اب بھی تمام فریقین کو اس بات پر ہی قائل کرنے کی کوشش کرے گا کہ مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ اور کنٹرول کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کرتا تھا یا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا طالبان پر کچھ اثر تھا لیکن اب وہ بھی کم ہو رہا ہے۔