• news
  • image

پیر‘22 ؍ شعبان المعظم 1437ھ‘ 30 ؍ مئی‘ 2016ء

علی حیدر گیلانی اپنے اغواء کے واقعات پر مبنی کتاب لکھیں گے۔
سلمان تاثیر فوراً پہل کریں کیونکہ وہ ان سے پہلے رہا ہوئے اور اغواء بھی۔ ان کی کتاب اگر پہلے مارکیٹ میں آ گئی تو ہاتھوں ہاتھ بکے گی۔ سلمان تاثیر جوان رعنا بھی ہیں خوش رنگ و خوش شکل بھی جدید تعلیم تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ الفاظ و بیان میں ان کے نام کی طرح اگر تاثیر آ جائے تو ان کی کتاب ’’اورنگ سلیمان‘‘ کی طرح جادوئی انداز میں چہار عالم میں چھا جائے گی۔ورنہ دیکھ لیں گیلانی کے فرزند نے بھی کس طرح کمائی کاایک اچھوتا خیال ڈھونڈ لیا ہے ورنہ ان کے اغوا اور برآمدگی کے حوالے سے ہی نہیں ان کے ایام قید یعنی اغوا کے دنوں کے بارے میں اتنی کہانیاں زبان زد عام ہیں کہ اگر وہ خود کتاب نہ لکھیں صرف ان کہانیوں کو ہی جمع کر لیں تو الف لیلیٰ کی طرح ہزار کہانیوں کا مجموعہ بن جائے گا اور وہ بھی بقول میرؔ:
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم اتنے کیے جمع تو دیوان کیا
والی بات کہہ سکیں گے۔ ان کے اغوا میں اپنوں کی مہربانیوں اور غیروں کی کارستانیوں کے حوالے سے زیر گردش کہانیوں کے بارے میں اور لوگ بہت کچھ جانتے ہیں۔ اس کے برعکس سلیمان تاثیر کے اغوا کی کہانی ، قید کے دورانیہ اور رہائی کے پس منظر کی بہت سی تفصیلات ہنوز تشنہ ہیں لوگ اس بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ کتاب کی شکل میں یہ سب بیان کریں تو دلچسپی سے پڑھی جائے گی…
…٭…٭…٭…٭…٭…
خیبر پی کے میں حالات بہتر، 10 ہزار اہلکار فارغ کرنے کا فیصلہ
ضرور یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی کیونکہ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی حکومت ہے جو عوام کی خدمت کی دعویدار ہیں۔ ابھی تو صوبائی حکومت اس بارے میں سوچ بچار کر رہی ہے۔ خدا نہ کرے یہ خبر حقیقت بن جائے اور یہ سکیورٹی اہلکار بے روزگار ہو جائیں۔ چند ایک کی بات الگ ہوتی ہے۔ 10 ہزار افراد کا مطلب 10 ہزار گھرانوں کا خرچہ پانی بند ہونا۔
ایک طرف حکومتیں اعلانات کرتی ہیں اور سیاستدان بھی بولتے رہتے ہیں کہ بے روزگاری کی وجہ سے جرائم اور دہشت گردی پیدا ہوتی ہے تو پھر ایسے اقدامات کیوں کیے جائیں کہ مجرم اور دہشت گرد پیدا ہوں۔ بجٹ میں اگر کوئی ایسا منصوبہ ہے تو اسے بدلنا ہو گا ورنہ مسلم لیگ والے اور مولانا فضل الرحمن تو آسمان سر پر اٹھا لیں گے۔ وہ تو پہلے ہی میدان سجائے بیٹھے ہیں۔ یہ برطرف ملازمین بھی اگر خان صاحب کے نقش قدم پر چل پڑے اور پشاور کے ساتھ بنی گالہ کے باہر دھرنا دے بیٹھے تو خٹک صاحب اور خان صاحب کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ اب ہر جگہ چودھری نثار جیسے نرم خور وزیر داخلہ تو نہیں جو برداشت کریں گے۔ خیبر پی کے کے وزیر داخلہ تو دھرنا دینے والوں کو ایسا سبق سکھا سکتے ہیں کہ میڈیا کو کافی دنوں کے لیے عوام کو دکھانے کے واسطے ایک نیا کھیل تماشہ مل جائے گا۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
جمہوریت کے لیے ہماری جان بھی حاضر ہے: قائم علی شاہ کا سیہون شریف میں خطاب
جناب جان رہ ہی کتنی گئی ہے ؟یہ تو کب سے ’’جان حزیں جب سے وقف آلام ہوئی‘‘ کی کیفیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اندر ہی اندر گھلتی یا گھٹتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود شاہ جی بقدر ہمت زور لگا کر دم لگا کر اپنی تقریروں کے دوران اچھل اچھل کر اپنی جانداری کا ثبوت دیتے ہیں تاکہ مخالفین کو ان کی ناتوانی کا احساس نہ ہو۔ رہی بات جمہوریت سے پیپلز پارٹی کی محبت کی تو یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔قائد پی پی پی آصف علی زرداری نے اس عفیفہ جمہوریت کے لیے اپنی زوجہ محترمہ کا خون تک معاف کر دیا تاکہ جمہوریت بچی رہے۔ یہ اسی بی بی جمہوریت کا اعجاز ہے کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کے بدترین دشمن اور مخالف ہونے کے باوجود اس پیرہن صد چاک کی حفاظت میں یکجا ہیں کیونکہ اس بوسیدہ تار تار پیرہن کے نیچے ان کے غیر جمہوری رویے اور آمرانہ طرز حکومت کا خونخوار وحشی درندہ چھپا ہوا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے اندر آمریت اور بادشاہی کی خَو بُو رکھتے ہیں مگر باہر سے جمہوریت کی قبا اوڑھے ہوئے عوام کی حاکمیت اور جمہوریت کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کے اسی دوغلے پن کا شکار پاکستانی عوام اب شاید کسی اور مسیحا کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
مشل اوباما کی پاکستانی سفیر کے گھر آمد، پاکستان امریکہ تعلقات اور تعلیمی شعبے میں امداد پہ گفتگو
گھر آئے مہمان کو خدا کی رحمت کہا جاتا ہے اب مشل ہمارے سفیر کے گھر اچانک آئی ہیں تو خدا کرے یہ باعث رحمت ہی ہو ورنہ اس وقت جو امریکی صدر مشل کے شوہر نامدار بارک اوبامہ کی پالیسیاں پاکستان کے حوالے سے تو سراسر زحمت ہیں۔ کوئی کام ہو بیگار ہو تو پاکستان کے سر ڈال دی جاتی ہے جبکہ منافع اور امداد پاکستان کے ازلی حریف اور امریکہ کے نئے دوست بھارت کے کھاتے میں۔ یہ عجیب دوغلی پالیسی کیوں؟ پاکستان کو ایف 16 کی فروخت اور مالی امداد بند کرانے امریکی صدر پاکستانی سفیر کے گھر آئیں، صدر امریکہ کی بیگم اپنائیت جتا کر انہیں ایف 16 اور مالی امداد کو بھول کر اچھے تعلقات کا نغمہ سنائیں اور تعلیمی شعبہ میں مدد کا درس دے کر بہلائیں۔ واہ ری قسمت غالب نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
امریکہ برسوں سے یہی شطرنجی چالیں چل رہا ہے اور پاکستانی اسے دوست کی ادائیں سمجھ کر صرف نظر کرتے چلے آ رہے ہیں مگر اب وقت بہت بدل گیا ہے۔ نئی پاکستانی نسل سارے دائو پیچ جان چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ دوستی کے اس زبردستی کے رشتے سے ہی ہاتھ کھینچ لیں… باز آئے ایسی محبت سے اٹھالو پاندان اپنا!
…٭…٭…٭…٭…٭…

epaper

ای پیپر-دی نیشن