آل پاکستان وائس چانسلرز کانفرنس
نہیں، ایسا نہیں ہے آپ تھوڑا سا مبالغہ سے کام لے رہے ہیں۔ بہر حال آپ کی الیکٹرانک چٹھی کا شکریہ تاہم آل پاکستان وائس چانسلرز میٹنگ میں میڈیا سیشن کے دوران میں اور میرے میڈیا فرینڈز ’’ہائرایجوکیشن اور میڈیا کا مقام‘‘ کے حوالے سے کچھ نہیں دے پائے۔ نہ کوئی نئی بات، نہ کوئی نیا مشورہ، نہیں، بس کچھ بھی نہیں کم از کم اس سیشن میں، سنجیدگی کی بلندیوں کو چھونا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی (وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) جس طرف مقررین کو لانا چاہتے تھے، نہ لا سکے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم خوش فہمی اور غلط فہمی کے سمندروں کی تیراکی اور غوطہ زنی سے باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ ہمارے کچھ مبصرین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کر دیں، اور کچھ کو کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ وہ کوزے کو سمندر ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
کاش! اس موقع پر سٹیج پر بیٹھا کوئی ایڈیٹر کہتا چونکہ میں فلاں اخبار کا مالک ہوں چنانچہ میں ایجوکیشن کو اتنے صفحات پر اتنے فیصد جگہ عنایت کروں گا یا کوئی اینکر پرسن کہتا چلیں آج تعلیم اور میڈیا والے باہمی احتساب کرتے ہیں کہ تم یہ ٹھیک کر لو میں وہ ٹھیک کر لیتا ہوں۔ چلیں پانی چونچ میں بھر کے لایا جا سکتا ہے یہ اگلی بات ہے آگ بجھے نہ بجھے کم از کم اپنے حصے کی شمع تو جلائی جا سکتی ہے۔ تیرگی میں جگنو بھی کسی تربیلا بجلی گھر سے کم نہیں ہوتا۔ یار کوئی مجھے بتائے گا کہ میڈیا کے لوگ جو بہت اچھی کرکٹ کھیل لیتے ہیں انہیں ہاکی کھیلنے کے لیے کیوں بلا لیا جاتا ہے؟ کوئی مجیب الرحمن شامی ہو یا اعجاز میر میں صدق دل سے انہیں استاد مانتا ہوں۔ سیاست اور صحافت کے علاوہ سفارش اور مناپلی کے بھی جاندار اور شاندار استاد ہیں لیکن تعلیم کے نہیں۔ یاسر پیرزادہ جیسے تلخ و ترش کی باتیں کہیں زیادہ مسیحائی رکھتی ہیں کیونکہ وہ کبھی وائس چانسلرز کوطرم خان کہہ لیتا ہے تو بھلے کی بات بھی کرتا ہے لطیفہ گوئی یا کہانی بازی نہیں۔ آل پاکستان وائس چانسلرز ایک ایسا فورم تھا جس سے وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر تعلیم پنجاب (ہائرایجوکیشن جو عارضی ہے)، پارلیمانی سیکرٹری برائے ہائر ایجوکیشن ایم پی اے مہوش سلطانہ (جس کو نہ کوئی جانتا ہے نہ اس کا اب تک کوئی تعلیمی کردار ہے)، وفاقی وزیر مملکت تعلیم و تربیت انجینئر بلیغ الرحمن اور بالخصوص وفاقی وزیر پلاننگ ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمرز پروفیسر احسن اقبل اور میڈیا کو خصوصی استفادہ کرنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر معصوم یاسین زئی کے پی کے سے ڈاکٹر رضیہ سلطانہ اور ڈاکٹر نور جہاں، سندھ سے ڈاکٹر لبنیٰ انصاری، ہمایوں ظفر جیسے سربراہان باصلاحیت منتظم ہیں۔
(1) میڈیا ایسی تجاویز اور ہوم ورک اس متذکرہ سیشن میں سامنے لاتا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک رپورٹ مرتب کرنے پر مجبور ہو جاتا لیکن منتظمین کا خیال شاید لوگوں کو ’’تبرکاً اور ’’متبرکاً‘‘ بلانا ہی تھا اور ہم سمیت اس کو کنڈکٹ کرنے والے وائس چانسلر شاہد صدیقی بھی تجربہ اور صلاحیت رکھنے کے باوجود اسے سطحی اور نمائشی ہی رکھنا چاہتے تھے تو بسم اللہ، کسی میڈیا پرسن کو بولنے کے لیے 2منٹ دیئے اور کسی کے تعارف پر 4منٹ لگانے پر ’’مجبور‘‘ تھے۔ وہ الگ بات ہے کہ فیڈ بیک سے معلوم ہوا کہ سننے والے خوش تھے جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ ستم تو یہی ہے کہ تمام HEC اور HED کہتے ہیں 40لاکھ ہائرایجوکیشن میں لانے ہیں، جو اس وقت تقریباً 25لاکھ ہیں لیکن خود ہی یہ پرائیویٹ سیکٹر اور پبلک سیکٹر کو تباہ بھی اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیںیہ تضاد نہیں؟
(2) لاہور میں یہ کانفرنس جسے کم از کم میں ’’تعلیم کا ایوان بالا ‘‘ قرار دیتا ہوں 23,24 اور 25 مئی گویا تین دن چلی۔ چلیے اگر وزیر اعظم صاحب نہیں تو کم از کم وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کو آنا چاہیے تھا اگر وہ بھی مصروف تھے انجینئر بلیغ الرحمن کا رونق افروز ہونا فرض تھا۔ میزبان ہونے کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا کسی ایک دن چند لمحے آنا فرض بنتا تھا۔ واضح رہے کہ بیگم ذکیہ شاہنواز (وزیر ہائر ایجوکیشن پنجاب)، مہوش سلطانہ (پارلیمانی سیکرٹری برائے ہائر ایجوکیشن) اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن جناب عرفان صاحب کا فرض تھا کہ وہ سہولت کار بنتے۔ وائس چانسلرز کی نہ سہی تعلیم و تحقیقی کی اہمیت اور ضرورت کو تو مد نظر رکھا جاتا۔
(3) راقم کی چیئر مین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر نظام الدین سے اتفاقاً ٹیلی فونک بات ہوئی تو انہی سے معلوم ہوا کہ عام طور پر اسلام آباد ہونے والی یہ میٹنگ اس دفعہ لاہور میں ہو رہی ہے۔ وہ نالاں تھے کہ انہیں آل پاکستان میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا، پس غصہ تھا۔ یہ درست ہے کہ سیاست دانوں سے لے کر میڈیا تک اور وزراء سے بیورو کریسی تک ابھی 18ویں ترمیم کو سمجھنے میں مصروف اور اس کے آفٹر ایفیکٹس بھگت رہے ہیں۔ تعلیم اور ہیلتھ سیکٹرز تباہ ہو رہے ہیں۔ حکومت، میڈیا، اشرافیہ اور شخصیات کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں! حالانکہ معاملہ 22ویں ترمیم تک جا چکا ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد چیئر مین پاکستان ہائر ایجوکیشن کمشن اپنی جگہ ایک محنتی، تعلیم دوست اور مہم جو آدمی ہیں۔ بہرحال انہیں چاہیے تھا جہاں انہوں نے پنجاب کے سیکرٹری کو اس کی ’’اہمیت اور افادیت‘‘ کے خوف سے عزت دی اور صوبائی وزیر تعلیم کو قابل عزت اور قابل فخر جانا (حالانکہ ان کے پاس چارج بھی ایڈیشنل ہے) وہاں ڈاکٹر نظام الدین کو بھی چند لمحے بلا لیتے تو کہاں سرداریوں میں کمی آ جانی تھی۔ کاش کوئی مشیر ہی مشورہ دے دیتا۔ مشیران بھی تو وائس چانسلرز میں تھے!
(4) پنجاب کو صحیح طرح لفٹ نہ کرانے کے باعث پنجاب کے چیئرمین ایچ ای سی اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے بھی خوب انجوائے کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب ’’مجبوراً‘‘ آ نہ سکے اور سیکرٹری صاحب نے وزیراعلیٰ کی ’’ایما‘‘ پر وہ چند وائس چانسلرز جن کا تعلق پنجاب سے تھا مثلاً ڈاکٹر محمد علی شاہ (جی سی یو ایف)، ڈاکٹر طاہر امین (بی زیڈ یو ملتان)، ڈاکٹر قیصر مشتاق (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور)، ڈاکٹر نورین قریشی (وومن یونیورسٹی فیصل آباد)، ڈاکٹر طلعت افزا (وومن یونیورسٹی بہاولپور)، ڈاکٹر فضل خالد (یو ای ٹی لاہور) ڈاکٹر حسن شاہ (جی سی یو لاہور) کا اس وقت چھٹی کا این او سی منسوخ کر دیا جب چند گھنٹوں بعد ان لوگوں نے لندن کیلئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی و دیگر کیلئے فلائی کرنا تھا۔ زندہ اقوام تو ٹریننگ کی سہولیات ماہرین تعلیم کو طشتری میں رکھ کر دیتی ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا تاہم میں نے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ڈاکٹر نظام الدین کو فون کر کے پوچھا تو معاملہ واقعتاً ایسا ہی تھا جہاں دال میں کچھ کالا کالا تھا وہاں پنجاب کو بحیثیت میزبان باقی صوبوں سے آئے وائس چانسلرز کو ’’خوش اسلوبی‘‘ پر مبنی یہ ری ایکشن ہرگز شو نہیں کرانا چاہئے تھا۔ مظفر آباد سے آئے ڈاکٹر خواجہ فاروق اور فاٹا کے ڈاکٹر طاہر شاہ کیا سوچیں گے؟؟ اداروں اور اصولوں کو تقویت دیں شخصیات کو نہیں!
(5) وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب ازراہ کرم تعلیم کو یتیم ہونے سے بچائیں۔ خاکسار یہ عرض، متذکرہ تنائو اور اس کے مضمرات گورنر پنجاب و چانسلر پنجاب جامعات ملک رفیق رجوانہ سے ایک ملاقات میں براہ راست بھی کر چکا ہے اور انہوں نے وزیراعظم و وزیراعلیٰ پنجاب سے صوبے اور مرکز کا ’’اعلیٰ تعلیمی تنائو‘‘ ختم کرانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
جاتے جاتے وہ چند باتیں جو 2 منٹ کی پابندی میں میں نے آل پاکستان وائس چانسلر میٹنگ کے میڈیا سیشن میں کیں وہ من و عن عرض کر دوں اسی تلخیص کے ساتھ: ’’تعلیمی ترقی چین ری ایکشن ہے، معاشرہ، بیوروکریسی، میڈیا اور حکومت (پورا ایکو سسٹم) مل کر ہی اس مشن میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر کیلئے Q.S اور ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی وہ رینکنگ بھول جاتے ہیں جس میں پاکستان کی ہائر ایجوکیشن کو کمزور ترین قرار دیا گیا، ہم حسن ظن رکھتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا اور ہائر ایجوکیشن دونوں کا کردار انفارمیشن اور ایجوکیشن کا ہے بلکہ فارمیشن کا ہے۔ فی الحال دونوں کی صورتحال آئیڈیل نہیں، دونوں ہی مقام اعراف پر ہیں۔ تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا چاہئے۔ میں نے پیار میں ایک دفعہ دو جرنیلوں کی موجودگی میں ایک وائس چانسلر کو تعلیم کا فیلڈ مارشل قرار دیا تو وہ بعد میں بقیہ مدت ملازمت میں ’’کورٹ مارشل‘‘ ہی بھگتتا رہا۔ بلاشبہ یونیورسٹیوں میں ریسرچ کے معیار کی کمی ہے، اس پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ایچ ای سی کے ٹینیور ٹریک سسٹم کے اساتذہ کو انتظامی عہدہ نہ دیں، ڈین بھی نہیں اور چیئرمین بھی نہ بنائیں۔ ایچ ای سی اور وائس چانسلرز ان سے صرف تحقیق کا کام لیں! یہاں کچھ وی سی جس طرح محض وی سی آر ہیں ایسے ہی کچھ صحافی سوڈو جرنلسٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہائر ایجوکیشن اور وائس چانسلرز کو بیوروکریسی کے پنجے، سیاستدانوں کے شکجے اور سوڈو میڈیا سے بھی بچائے! شکریہ‘‘۔