نواز شریف کا جانشین اور ڈاکٹر قدیر کی یونیورسٹی
یوم تکبیر پر بات کرنے اور یونیورسٹی آف ساﺅتھ ایشیا کے لیے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کی طرف سے صدر کا عہدہ قبول کرنے کی خوشی میں شریک ہونے سے پہلے میں یہ کہوں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نواز شریف کی شدید علالت کے دوران قائم مقام وزیراعظم بن بیٹھنا کچھ اچھا نہیں لگا۔ نواز شریف کے لیے پوری قوم کی دعائیں اللہ کے حضور پہنچ گئی ہیں مگر نواز شریف اس حال میں بھی اپنے رشتہ دار اور کشمیری کے علاوہ کسی پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس حوالے سے دوسرا نام خواجہ آصف کا ہے۔ اب میں کیا کہوں کیا کروں شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اسحاق ڈار نے اب تک نواز شریف کے لیے بدنامی ہی کمائی ہے۔ ان کے حوالے سے ہر کام کے لیے کمائی کا لفظ ہی زبان پر آتا ہے۔
ماہرین قانون اور کئی مقتدر شخصیتوں نے اس بات پر اعتراض کیا ہے۔ اسحاق ڈار کا وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرنا غیر آئینی غیرقانونی بلکہ غیراخلاقی ہے۔ بار کونسل کے صدر نامور ایڈووکیٹ بیرسٹر علی ظفر ان کے والد ممتاز قانون دان اور سماجی شخصیت ایس ایم ظفر نے کہا کہ کابینہ اجلاس کی صدارت کوئی شخص نہیں کر سکتا۔ جسٹس (ر) شائق عثمانی نے نئے وزیراعظم کے انتخاب کی تجویز دی ہے کابینہ میں صرف ایک ہی شخص ہے۔ بہادر خوددار اور غیور چودھری نثار علی خان جو اس قابل ہے مگر نواز شریف کی نظر ان پر کیوں نہیں پڑتی آخر نالائق اور خود غرض لوگ ہی ان کے وفادار کیوں بنتے ہیں۔ وہ صرف ایسے ہی لوگوں کو وفادار کیوں سمجھتے ہیں؟ انہیں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف ہی نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں جنرل راحیل شریف سے چودھری نثار اور شہباز شریف ملے تھے۔ لوگ سب جانتے ہیں کہ وہ آرمی چیف سے کیوں ملے تھے۔ آج کل جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف سے ملنا چھوڑا ہوا ہے۔
یوم تکبیر کے لیے میرا دل چاہتا ہے کہ نعرہ تکبیر لگاﺅں۔ اللہ اکبر۔ اس سے دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ یوم تکبیر کا نام تجویز کرنے والے کا نام بھی ہم نہیں جانتے۔ غالباً صادق صاحب آج بھی ٹھیلہ لگا کے فروٹ بیچتا ہے۔ ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر مایوس اور اداس ہیں۔ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر اور ممتاز کالم نگار سعید آسی نے لکھا ہے کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے گھر پر نظربند ۔ یہ بات آسی صاحب بھی مانتے ہیں کہ حکومت نے بلکہ نواز شریف کی حکومت نے بھی انہیں مسلسل نظرانداز کیا ہوا ہے۔ جب چاغی کے پہاڑوں کی ہمسائیگی میں ایٹمی دھماکہ کیا گیا تو ڈاکٹر صاحب کو دور کھڑا کیا گیا۔ وہ حیرت سے اس کارنامے کا کریڈٹ لینے والوں کو دیکھتے رہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ ان کا محبوب آج بھی صرف ڈاکٹر قدیر خان ہے۔ آج بھی کہیں وہ تشریف لائیں تو لوگوں کا والہانہ پن انوکھا منظر پیش کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں ڈاکٹر مجاہد کامران نے انہیں پنجاب یونیورسٹی بلایا تو طلبہ و طالبات کی عقیدت دیدنی تھی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بہت پسند کرتے ہیں۔
سپہ سالار صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے ڈاکٹر قدیر کی تنہائی کو نکھار دیا۔ نوائے وقت میں ان کے مقام و مرتبے کی حفاظت کے لیے کئی برس تک ایک چراغ جلائے رکھا اور اسے بجھنے نہ دیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس وزیراعظم کی حکومت کے دور میں بھی محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان نظر بند ہے۔ جس نے چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچایا کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے مگر پاکستانی حکمران کیوں خوف زدہ ہیں۔ میں اس شرمساری کو ایٹمی شرمساری کہوں گا۔ انہیں یقین نہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے؟ پاکستانی حکمرانوں کی مدافعانہ پالیسیاں آخر کیوں ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے تو پھر یہ اور بری بات ہے۔ ہم اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں۔
میں موسیٰ خیل ضلع میانوالی کا رہنے والا ہوں۔ یہاں ہر گھر میں اسلحہ ہوتا ہے تو کوئی کسی پر رعب نہیں جما سکتا۔ کسی گھر میں ہتھیار ہو تو کوئی وہاں گھس کر گھر کی ماں کی توہین کر دے تو کیا اسلحہ صرف اپنے دل کی تسلی کے لیے ہے مگر دل کو تسلی تو پھر بھی نہیں ہے یہ ملک ماں دھرتی ہے مگر ہمارے حکمران سیاستدان اسے اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے والی فیکٹری سمجھتے ہیں یہ کیسے جاگیردار ہیں کہ جاگیریں باہر کے ملکوں میں بنائی ہوتی ہیں۔ ان کے بچے ان کے اثاثے ان کے رویے ان کا سب کچھ باہر ہے۔ باہر کی دولت کبھی اپنی نہیں ہوتی۔ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ مگر قوم کو بھی نہیں ملتا۔
اللہ نواز شریف کو صحت یاب کرے۔ وہ تو ایٹمی دھماکے بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ باہر کے آقا ناراض نہ ہو جائیں۔ دھماکے بھی دھمکی دے کر مجید نظامی نے کرائے، دھماکے کرو ورنہ قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی؟ دھمکی دھماکے سے بڑی ہو گی ۔
آج بھی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملک و قوم کی خوشحالی ترقی اور عزت سلامتی کے لیے کئی کام لیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ میں مہینوں کی محنت سے لوڈشیڈنگ ختم کر سکتا ہوں مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا۔ ایٹمی ٹیکنالوجی دوسرے شعبوں میں بھی کام میں لائی جا سکتی ہے۔ یہ سب کام ڈاکٹر صاحب کی نگرانی میں بآسانی ہو سکتا ہے۔
پاکستانی سائنسدان دنیا کے بڑے سائنسدان ہیں نجانے سیاستدان انہیں کیوں اچھا نہیں سمجھتے۔ پاکستانی سائنسدانوں نے ایٹم بم کے علاوہ چھوٹے چھوٹے سمارٹ بم بنا لیے ہیں جو دشمنوں کے چھکے چھڑا سکتے ہیں۔ اس کے لیے بھارت پریشان ہے۔ بلکہ امریکہ بھی بے قرار ہے۔ یہ بم تو امریکہ بھی نہیں بنا سکا۔ بھارت کا ایٹم بم ہمارے ایٹم بم کے مقابلے میں بہت کمتر ہے۔
میں برادرم محمود صادق کو مبارکباد دیتا ہوں اور بہت خوش ہوں کہ یوم تکبیر پر ایک بڑی تقریب یونیورسٹی آف سا¶تھ ایشیا میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر قدیر خان کی موجودگی میں یہ تقریب شاندار ہو گئی۔ ڈاکٹر قدیر نے یونیورسٹی آف سا¶تھ ایشیا کا صدر بننا قبول کر لیا ہے۔ ہم ڈاکٹر قدیر اور محمود صادق دونوں کے شکر گزار ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر عمران مسعود مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اصل یوم تکبیر یونیورسٹی آف سا¶تھ ایشیا میں منایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر قدیر ہوں تو یوم تکبیر تو وہیں ہو گا۔ تقریب میں یونیورسٹی آف سا¶تھ ایشیا کے وائس چانسلر عمران مسعود مجیب الرحمن شامی پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران پی جے میر ڈاکٹر سعید الٰہی محمود صادق اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خطاب کیا۔ عمران مسعود نے بتایا کہ سندھ میں ایک یونیورسٹی اور نالج سٹی بنا رہے ہیں۔ کئی تعلیمی منصوبے آغاز کر رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کسی طرف سے ڈاکٹر قدیر کی پذیرائی ہوئی۔ میں ذاتی طور پر یونیورسٹی آف سا¶تھ ایشیا کا شکر گزار ہوں۔