سینٹ میں شدید احتجاج‘ امریکی سفیر ملک بدر‘ ڈرون مار گرائے جائیں: رہنما جے یو آئی ف‘ 22ویں ترمیم کا بل منظور
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی/نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) سینٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے پر شدید احتجاج اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے ہماری قومی سلامتی اور وقار کے منافی ہیں۔ بین الاقوامی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ارکان پارلیمنٹ نے معاملہ کو عالمی سطح پر اٹھانے، امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے اور ڈرون طیارے مار گرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایوان بالا میں تحریک التوا پر بات کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ملا اختر منصور کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا اور انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اور بھی بہت سے لوگوں کو جعلی شناختی کارڈ جاری ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے نادرا پر اور گزشتہ حکومت پر الزامات عائد کئے اور کہا کہ طالبان کے ترجمان کے مطابق ملا اختر منصور مختلف جگہوں پر سفر کرتا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال سے ایک تضاد سامنے آیا ہے۔ یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان اور ملا اختر منصور ہمارے کنٹرول میں نہیں مگر ان کو پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی جاری کیا گیا تھا۔ حکومت کہتی ہے کہ ملا اختر منصور امن کا داعی تھا اور اسے ڈرون حملے کا نشانہ بنا کر امن عمل کو نقصان پہنچایا گیا۔ امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ حکومت20کروڑ عوام کے شناختی کارڈ اور سرکاری دستاویزات کو دوبارہ چیک کر رہی ہے ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے میں براہ راست ریاست ملوث ہو۔ گزشتہ دور حکومت میں 27ہزار شناختی کارڈ کو مشکوک سمجھ کر حساس اداروں کو بھیجے گئے جس میں 90فیصد حساس اداروں نے درست قرار دے دیئے تھے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ وزارت داخلہ نے حالیہ ڈرون حملے کے بعد ہماری بین الاقوامی تنہائی میں اضافے کی بنیادی وجہ سکیورٹی اور خارجہ امور کے درمیان خارجہ پالیسی پر تضادات ہیں اس کی وضاحت کی جائے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ یہ واقعہ ہماری علاقائی خودمختاری اور سلامتی کے منافی ہے آج امریکہ کی مخالفت کرنے والے افراد کو امریکہ ٹارگٹ کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا اور خصوصاً ایشیا پر امریکہ کی نظر ہے اور اس خطے کو غیر مستحکم کرنے میں امریکہ کا کردار ہے۔ امریکی سینٹ یا کانگرس جس خطے کو چاہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں یا ان پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں۔ پاکستان کوامریکی گندم اور ایف 16سے کوئی ترقی نہیں ملی امریکہ جس خطے میں جاتا ہے وہاں پر امن کی بجائے دہشت پھیلاتا ہے۔ ہمیں امریکہ سے مدد مانگنے کی بجائے اپنی خودمختاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ ہم امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کی سمت مقرر کرنے اور تضادات کے خاتمے کے لئے وزیر خارجہ کی تعیناتی بے حد ضروری ہے، پاکستان کو عالمی دنیا پر واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ امریکی ڈرون حملہ افسوسناک اقدام ہے۔ یہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ حکومت کو اس معاملے کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی پر بحث کرنی چاہئے۔ سینیٹر مشاہد سید نے کہا خطے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان دوستی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے افغان امن عمل پر کیا اثرات پڑے ہیں اس حملے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کیا اثرات پڑے ہیں اور ڈرون پر پاکستان کی پالیسی کیا ہے اس کے جوابات بے حد ضروری ہیں۔ سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ موجودہ ڈرون حملے سے پاکستان کی بارڈر منیجمنٹ پر سوالات اٹھے ہیں ۔ پاکستان میں افغانستان کے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور نادرا کے شناختی کارڈ کے مسائل سامنے آئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں افغان طالبان کا شوریٰ موجود ہے اور موجودہ طالبان کمانڈر کا تعلق بھی کچلاک کے ایک مدرسے سے ہے۔ ڈرون حملوں سے پاکستان کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کوئی بین الاقوامی قانون مشتبہ افراد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا امریکہ امن میں مخلص نہیں ڈرون حملوں میں207بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ حکومت کو ڈرون حملوں پر سخت اقدامات کرنے چاہئیں اور واضح پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔ سینیٹر جان کینٹ ولیم نے کہا ڈرون حملے سے پاکستان کی خودمختاری پر ضرب پڑی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ملا اختر منصور کی شہادت پر ہم شدید احتجاج کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) امریکہ کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ امریکی ڈرون حملے کے خلاف چائے کی پیالی پر ڈرون حملے کی مذمت کافی نہیں حکومت امریکی سفیر کو ملک بدر کرے اور امریکی ڈرون کو گرایا جائے۔ حکمران امریکہ کے خلاف نہیں بولتے کیونکہ ان کو پتہ ہے اقتدار امریکہ کی مرضی سے آتا ہے۔ مذاکرات کو بار بار سبوتاژ کرنے کا مسئلہ ہماری وزارت خارجہ نے کبھی امریکہ کے ساتھ اٹھایا ہے؟ یقیناً نہیں۔آج تک پارلیمنٹ میں خارجہ پالیسی پر کوئی بات نہیں ہوئی ہمیں پتہ نہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے۔ ڈرون حملے کے بعد ہمارے اور افغانستان کے تعلقات کیسے ہیں ایران اور امریکہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن یہ واضح کیا جائے۔ چیئر مین سینٹ نے رولنگ دی پورے ایوان کو امریکی صدر کے بیان پر تشویش ہے جس میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں جہاں بھی خطرہ نظر آئے وہاں ڈرون حملہ کریں گے۔ انہوں نے کہا ایف 16 کے معاملے پر امریکی سینٹ نے ردعمل ظاہر کیا پاکستان کی سینٹ کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دفاع اور خارجہ کمیٹیاں ایف 16 کے معاملے سے ایوان کو آگاہ کریں۔ ایف 16 سے کہیں زیادہ سنگین ڈرون حملے کا معاملہ ہے۔ امریکہ کا ڈرون حملے جاری رکھنے کا بیان قابلِ تشویش ہے۔ ڈرون حملے معمولی معاملہ نہیں، یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ مزید برآں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سینٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا امن عمل کو کم اہمیت دینا افسوسناک ہے۔ ڈرون حملے کا معاملہ عالمی انسانی حقوق کمشن میں اٹھائیں گے۔ اصولی مؤقف پر دوست ممالک سے بھی بات کریںگے۔ ڈرون حملے کے معاملے کو سفارتی فورم سمیت ہر سطح پر اٹھائیں گے۔ امریکہ اور افغانستان کو کہا ہے مذاکرات کے ذریعے ہی امن آ سکتا ہے۔ جنگ اور فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ ڈرون حملے مذاکراتی عمل کو متاثر کر رہے ہیں۔ آرمی چیف اور وزیراعظم کو ڈرون حملے کے بعد بتایا گیا۔ ہم اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ حکومت نے معاملے کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں اٹھایا ہے۔ رواں سال 3 ڈرون حملے ہوئے۔ پہلا ڈرون حملہ 2004ء میں ہوا، دس برسوں میں تقریباً 400 حملے ہوئے، یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ہم اس معاملے پر کنفیوز اور چُپ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے نوشکی ڈرون حملے کا اثر افغان امن عمل، پاکستان امریکہ تعلقات پر پڑا ہے۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیسے جاری ہوا، وزیر داخلہ تحقیقات کر رہے ہیں۔ دریں اثنا پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کی جس میں پاکستان امریکہ تعلقات سمیت خطے کی مجموعی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا، مشیر خارجہ نے امریکی ڈرون حملے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ایسی کارروائیاں خطے میں قیام امن کیلئے نقصان دہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں دیں، آپریشن ضرب عضب سے خطے میں قیام امن میں بہت بہتری آئی ہے ، دنیا کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے ہماری سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں، ایسی امریکی کارروائیوں سے خطے میں قیام امن کو شدید جھٹکا لگا ہے، پاکستان افغانستان میں امن کا خواہش مند ہے، افغانستان میں امن سے پورے خطے کے مفاد میں ہے، پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کو ایک ہی میز پر لانے کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کسی بھی مسئلے کا حل جنگ نہیں، صرف اور صرف مذاکرات ہیں تاہم امریکی ڈرون حملے میں طالبان قیادت کی ہلاکت سے مذاکرات اور امن کے قیام کیلئے کی گئی کوششوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان خطے میں قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ اس موقع پر امریکی سفیر نے کہا دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے، اس حوالے سے امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنا قریبی تعاون جاری رکھے گا۔ ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین اور ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ اصولی مؤقف پر دوست ممالک سے بھی بات کریں گے۔ جنگ اور فوجی آپریشن افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ امریکہ اور افغانستان کو بتایا ہے مذاکرات کے ذریعے ہی امن آ سکتا ہے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + اے پی پی + این این آئی) سینٹ نے 22ویں ترمیمی بل کی اتفاق رائے سے منظوری دیدی‘ بل کے حق میں 71 ارکان نے وو ٹ دیا ٗ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ ارکان سینٹ نے ترمیم پر اعتراضات کرتے ہوئے کہا اس کے الفاظ پر ہمیں تحفظات ہیں۔ قائد ایوان اعتزاز احسن نے کہا ہمیں اس ترمیم کی زبان پر اعتراض ہے جہاں بی پی ایس 22 کا ذکر آیا ہے وہ نہیں آنا چاہئے تھا۔ بل میں عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 68 سال مقرر کی گئی ہے جو بہت زیادہ ہے تاہم ہمیں یہ بھی اندازہ ہے دس جون سے قبل اس کی منظوری ضروری ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں حکومت یقین دہانی کرائے ایسی بری ڈرافٹنگ نہیں کی جائے گی۔ اعظم سواتی نے کہا اس بل کے ذریعے حکومت کو سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ سراج الحق‘ نعمان وزیر اور الیاس بلور نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا یہ اصول نہیں بنایا جانا چاہیے جو بل اسمبلی نے پاس کردیا سینٹ بھی اسے لازمی پاس کرے گا۔ حکومت یقین دہانی کرائے بل کی زبان درست کی جائیگی۔ بابر اعوان نے کہا ہم ہمیشہ کہتے رہے نظریہ ضرورت کو دفنا دیا جائے آج ہر طرف سے اس کی بو آرہی ہے۔ ایوان بالا کو بے وقعت نہ کیا جائے۔ حکومت کو بل پہلے لانا چاہئے تھا۔ بیرسٹر سیف نے کہا اس بل میں کئی غلطیاں ہیں۔ عجلت میں قانون سازی کے غلط نتائج نکلیں گے۔ کرنل(ر) طاہر مشہدی نے کہا ایوان بالا میں بھی بل پر بات ہونی چاہئے۔ میر کبیر محمد شاہی نے کہا بل کو مناسب وقت پر لانا چاہیے تھا۔ عثمان کاکڑ نے کہا بل کی حمایت میں ووٹ دیں گے لیکن سینٹ کو اہمیت دی جائے۔ سعید غنی نے کہا بل کی ڈرافٹنگ میں بہت سی چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ شاہی سید نے کہا بل کی حمایت نہیں کرتا۔ مصلحتوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ایوان سے واک آئوٹ کرتا ہوں اس کے ساتھ ہی وہ ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا انتخابی اصلاحات کمیٹی میں 30 میں سے 10 ارکان سینٹ تھے۔ کمیٹی کے 18 اور 56 اجلاس ذیلی کمیٹی کے ہوئے۔ کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ کمیٹی کے ارکان سے دو بار درخواست کی اپنے ارکان اور رہنمائوں کو اعتماد میں لیں اب یہ کہنا قومی اسمبلی بل تھونپ رہی ہے غلط ہے۔ بل میں چیف الیکشن کمشنر اور ممبرز کی اہلیت کا تعین اتفاق رائے سے کیا گیا۔ بائیسویں ترمیم ہم نے نہیں کی یہ سب کی مشاورت اور خواہش سے آئی ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کمیٹی کے 34 ارکان میں 11 سینیٹرز سمیت سب جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ وزیر خزانہ نے خود کو نہیں گنا۔ کسی نے اختلافی نوٹ بھی نہیں دیا۔ اعتزاز احسن نے کہا سینٹ ربڑ سٹیمپ نہیں۔ 22ویں ترمیم کا مسودہ ناقص ہے۔ رائے شماری کے دوران محسن لغاری نے بل کی کلاز 2، 4 اور 5 میں ترمیم پیش کی جس کی حکومت نے مخالفت کی۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے 22 ویں ترمیمی بل کی منظوری پر چیئرمین سینٹ اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا بل کی منظوری تاریخی موقع ہے۔ اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیر قانون و انصاف و ماحولیاتی تبدیلی زاہد حامد نے کہا ہے پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں 8 ویں نمبر پر ہے جبکہ اس کے برعکس ماحول کو خراب کرنے میں ہمارا حصہ بہت کم ہے‘ حکومت کلائمیٹ اتھارٹی تشکیل دے رہی ہے‘ وزیر مملکت برائے تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا پاکستان کی دس یونیورسٹیاں ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ سلیم مانڈوی والا‘ محسن عزیز‘ کامل علی آغا‘ اسلام الدین شیخ اور محسن لغاری کے توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا برطانوی درجہ دینے والی ایجنسی (کیو ایس) نے اعلیٰ تعلیمی نظام کی جو درجہ بندی کی ہے اس میں 195 ملکوں میں سے پاکستان کو 50 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس پر اعتراضات ہیں، خیبر پی کے حکومت کے مطالبات سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پاکستان منٹ کے ایچ ای سی اور ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی نجکاری سے متعلق معاملے پر خصوصی کمیٹی کی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کی۔ چیئرمین سینٹ نے قائمہ کمیٹی خزانہ اور کابینہ سیکرٹریٹ کو دو الگ معاملات پر کمیٹی کی رپورٹیں پیش کرنے کے لئے مزید مہلت دے دی۔ چیئرمین سینٹ نے کریڈٹ بیورو ترمیمی بل 2016ء اور سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن ترمیمی بل 2016ء متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیئے۔