’’گجرات فسادات‘‘ 69 مسلمانوں کو زندہ جلانے والے 36 ہندو غنڈے بری‘ 24 مجرم قرار
احمد آباد (نیٹ نیوز + نیوز ڈیسک) بھارتی ریاست گجرات میں خصوصی عدالت نے 2002ء کے بدنام ترین مسلم کش فسادات کے دوران دارالحکومت احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں 69 مسلمانوں کو تشدد کے بعد زندہ جلانے کے مقدمے میں 24 انتہا پسند ہندوئوں کو مجرم قرار دیدیا جبکہ 36 غنڈوں کو کمزور شہادتیں پیش کئے جانے کے باعث شک کا فائدہ دیکر بری کردیا۔ جن افراد کو عدالت نے مجرم قرار دیا ان میں انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کے رہنما اتل ویدیا اور کانگریس کے سابق کونسلر میگھ جی چودھری بھی شامل ہیں۔ قصوروار قرار دیئے جانے والے 24 میں سے 11 ہندو غنڈوں کو قتلِ عمد کی دفعہ 302 کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔ تمام مجرموں کو 6 جون کو سزا سنائی جائیگی۔ عدالت نے اپنے نرالے فیصلے میں کہا کہ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے پیچھے ہندوئوں کی منصوبہ بندی نہیں تھی بلکہ وقتی اشتعال تھا، عدالت نے قتل عام کی منصوبہ بندی کا الزام تمام ملزموں پر سے ختم کردیا۔ خصوصی عدالت کے جج پی وی ڈیسائی نے اپنے فیصلے میں جن 36 غنڈوں کو بری کیا ان میں گجرات پولیس کے انسپکٹر جی اردا اور بی جے پی کا کونسلر وپن پٹیل بھی شامل ہے۔ 400 ہندو غنڈو نے 28 فروری 2002 کو احمد آباد کے مرکز میں واقع گلبرگ ہاؤسنگ سوسائٹی کمپلیکس میں داخل ہو کر وہاں پناہ لئے ہوئے 69 مسلمانوں کو تشدد کے بعد زندہ جلا دیا تھا جن میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی شامل تھے۔ یہ فسادات گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس ٹرین کو آگ لگائے جانے کے واقعہ جس میں 59 ہندو ہلاک ہو گئے تھے، کو بنیاد بنا کر بھڑکائے گئے جس وقت یہ خونیں فسادات ہوئے تو ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے قتل عام پر آنکھیں اور کان بند رکھے بلکہ اس وقت کے وزیر داخلہ امیت شاہ فسادات کے ’’آپریشنل کمانڈر‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے، تاہم مودی اور امیت شاہ کو انتہا پسند ہندوئوں کے دبائو پر عدالتوں نے مقدمات میں سے دودھ میں گری مکھی کی طرح باہر نکال دیا۔ 14 برس بعد مقدمے کا فیصلہ آنے پر احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے کہاکہ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں اس کیس میں مکمل انصاف ہوا نہ تمام مجرموں کو سزا دی گئی، انہوں نے کہا کہ میں نے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل عام کرتے دیکھا اور بے گناہوں کو مرتے انکے گھر جلتے دیکھا میں عدالتی فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرونگی اور اپنی آخری سانس تک انصاف کیلئے لڑونگی۔ یہ مقدمہ 67 افراد کے خلاف دائر ہوا تھا لیکن مقدمے کی سماعت کے دوران چار لوگوں کی موت ہو چکی۔ مقدمے میں بحث کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اس دن مشتعل ہجوم سوسائٹی کے اندر گھس آیا اور چار گھنٹے تک قتل و غارت گری جاری رہی۔ بچے، بوڑھے اور خواتین سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے دو منزلہ مکان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ آخر میں احسان جعفری خود باہر آئے اور ہجوم سے کہا کہ وہ ان کی جان لے لیں لیکن بچوں اور عورتوں کو بخش دیں۔ مشتعل افراد انہیں گھسیٹ کر باہر لائے اور ان پر تشدد کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد ہجوم نے ان کے گھر کو بھی آگ لگا دی۔ واضح رہے کہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران چار ججوں کے تبادلے ہو چکے ہیں اور 338 افراد کی گواہی شامل کی گئی۔