’’ماں میں ٹھیک ہوں ‘‘
میاں نواز شریف نے ماں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ماں میں ٹھیک ہوں‘‘… ممتا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے بیٹے کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ 1993ء کی بات ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے تب صدر پاکستان اسحاق خان کے ساتھ میاں نواز شریف کی سیاسی چپلقش عروج پر تھی لیکن پوری قوم میاں نواز شریف کی گرویدہ تھی۔ تب میاں نواز شریف واقعی ایک سچے اور پکے پاکستانی لیڈر تھے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی کی طرح محنت محنت اور صرف محنت پر یقین رکھتے تھے اور خوشامدیوں کو اپنے قریب بھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ انہیں صرف اپنے ملک کی فکر تھی اور وہ شیر شاہ سوری کی طرح ترقیاتی کاموں کے دیوانے تھے۔ انہوں نے سڑکیں اور پل تعمیر کروائے تو قوم کو اچھا لگا اور ہر کوئی ان کا دیوانہ ہو گیا پوری قوم کی طرح ہمارا خاندان بھی انکے ترقیاتی کاموں کے باعث انکا گرویدہ تھا۔ ہمارا گھرانہ مسلم لیگی ہے اور تب سے ہم میاں نواز شریف کے ساتھ تھے۔ اسحاق خان نے جب اسمبلی توڑی تو اس رات ہماری فیملی نے کھانا نہیں کھایا۔ سب ڈسٹرب رہے۔ تب میاں نواز شریف کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ جو وہ کہتے تھے وہ کر گزرتے تھے۔ خدانخواستہ اگر 1993ء میں میاں نواز شریف کو ہارٹ کا مرض لاحق ہوتا تو آج ملک بھر میں دل کے بہترین ہسپتال قائم ہوتے پسماندہ علاقوں میں بھی دلوں کے مریضوں کیلئے جدید سہولتیں دستیاب ہوتیں۔ مجھے کچھ عرصہ قبل پی آئی سی لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ تو ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر دل افسردہ ہوا پی آئی سی کی تنگ کوریڈور میں چھوٹے بیڈ پر 4 مریض لیٹے ہوئے تھے۔اور ایک مریض کرسی پر بیٹھاکراہ رہا تھا۔ پونے دو کروڑ کی آبادی میں صرف دل کا ایک ہسپتال ہے اگر صرف اسی آبادی کیلئے ہوتا تو پھربھی گزارہ ہو سکتا تھا۔ لیکن ملتان سے لیکر راولپنڈی تک سبھی دل مریض کے اسی ہسپتال میں آتے ہیں۔سابق پنجاب حکومت کے دور میں وزیرآباد کارڈیالوجی ہسپتال 2006ء میں شروع ہوا، اسے 2009ء میں مکمل ہونا تھا، 2007ء تک اس کا 95 فیصد تعمیراتی کام مکمل ہو گیا تھا اور ضروری مشینری بھی خرید لی گئی تھی مگر 2008ء تا 2013ء کے درمیانی 5 سالوں میں اس پر کام اور فنڈز نامعلوم وجوہات کی بناء پنجاب حکومت نے روک دئیے۔ گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہائوالدین اور جہلم کے عوام کے مطالبہ پر ان کی سہولت کیلئے چودھری پرویز الٰہی نے ہسپتال کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ ہسپتال کے اس منصوبے کے بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اب اس کا تخمینہ لاگت ڈبل ہو چکا ہے۔ بجٹ 2013-14ء کی دستاویز کو دیکھا تو انتہائی دکھ ہوا کہ اس میں وزیرآباد کارڈیالوجی ہسپتال کیلئے صرف 10 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں، ان 10 لاکھ روپے سے تو محض دو چار ماہ یوٹیلٹیز کے بل تو ادا ہو سکتے ہیں مگر ہسپتال فنکشنل نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اس ہسپتال کیلئے 2013-14 کے بجٹ میں 1 ملین، 2014-15 کیلئے 224.771 ملین اور 2015-16 کیلئے 12 ملین رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے پنجاب حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت 2016ء سے پہلے اس ہسپتال کو فنکشنل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس منصوبہ کی باقیماندہ ساری رقم یکمشت 2013-14 کے بجٹ میں رکھی جاتی مگر ایسا نہ کیا گیا ۔میر ی دعا ہے اللہ میاں نواز شریف کو جلد صحت دے۔ جب وہ واپس آئیں تو کم از کم ہر شہر میں دل کا ایک بہترین ہسپتال بنا دیں۔ تو پھر ہر ماں کا بچہ کہہ گا’’ ماں میں ٹھیک ہوں‘‘۔ اب بچے بے روزگاری کے باعث خودکشیاں کر رہے ہیں۔ کوئی بچہ تعلیم حاصل کر کے ڈگری ہاتھ میں لیکر سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہے۔ تھر ہو یا جنوبی پنجاب اسلام آباد ہو یا لاہور ہر جگہ پر یکساںترقیاتی کام ہونے چاہیں۔ لیکن یہاں پر تو وسائل کا رخ صرف چند بڑے شہروں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ بلند و بالا علاقے ہوں یا بلوچستان کے بلند پہاڑوں کے بیج پسماندہ وادیاں اور ان میں بسنے والے غریب کوجب دو وقت کی روٹی ملے تو وہ کہے گا ماں میں ٹھیک ہوں۔ لیکن اس وقت صورتحال یوں ہے کہ ضروریات زندگی کی اشیاء عوام کی پہنچ میں نہیں۔ صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ انصاف کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیںانصاف ہر کسی کیلئے قابل رسائی ہونا چاہیے۔ صدر پاکستان نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا لیکن انہوں نے بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔ صدر پاکستان نے بھی رٹی رٹائی تقریر پڑھ دی۔مارکیٹ کا کیا حال ہے ؟ ایک ٹیچر کی تنخواہ سے پورا مہینہ کچن بھی نہیں چل سکتا ،ٹھنڈے اوربر تعش کمروں میں تشریف فرمالوگوں کو مزدور کے تلخ شب روز کا کیا علم ؟یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ،میاں نواز شریف صاحب آپکے ملک کا ایسا نظام ہونا چاہیے کہ نرسنگ سٹاف کو گرمی میں سڑکوں پر بیٹھنے کی ضرورت نہ ہو، آپ انہیں بھی مریم کی طرح بیٹی سمجھیں وہ بھی آپکی بیٹیاں انکی مشکلات حل کرنا آپکے ذمہ ہے آپ نے تو اپنی والدہ محترمہ کو فون کر کے بتا دیا ماں میں ٹھیک ہوں لیکن حقیقی خوشی تب ہو گی جب سڑک پر بیٹھی نرس اپنی ماں کو فون کر کے بولے گی ’’ ماں میں ٹھیک ہوں‘‘