اصل جرم!
جن سے ہم نے آزادی لی انکے بھی گنہگار ہم اور جنہوں نے ہم سے آزادی لی انکے مجرم بھی ہم ہی ہیں۔ آئینہ دیکھتے ہیں تو مسلسل ایک مجرم ہی کی شکل نظر آتی ہے ،گناہ پچھلوںکا ہو یا اگلوں کا، پھندہ ہماری گردن میں ہی تنگ رہتا ہے۔
اکیسویں صدی میںبنگلہ دیش کی حکومت جس طرح گڑھے مردے اکھاڑ کر قانون کے نام پر بوڑھے لوگوں کو پھانسیاں دے رہی ہے، state terrorism کی اس سے زیادہ گندی مثال نہیں ملتی۔ 2008 کو بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل بنایا گیا۔ جس کا مقصد 1971کے جنگی مجرموں کو سزائیں دینا تھا۔ وہ مجرم جنہوں نے بنگالیوں کا قتل ِ عام کیا، عورتوں کی عصمتیں لوٹیں اور املاک کو نذر ِ آتش کیا۔ جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا کہ پاکستان سے آزادی لینے والوں کے بھی ہم تاحیات مجر م ہیں اور انڈیا کی تقسیم کے ولن بھی ہم ہی قرار پا چکے ہیں۔ یک طرفہ تماشے کی دہائی سن سن کر کان پک جائیں تو شرمیلا بھوسے جیسی کسی باضمیر ہندوستانی کی کتھائیں بھی پڑھ لیں جنہوں نے 1971کی جنگ کا وہ پہلو بھی دکھایا ہے جو ہشیار پروپیگنڈا کر نیوالوں نے ہماری نظروں سے اوجھل رکھا ہو ا ہے۔ بنگالی جب اقتدار میں آئے تو مکتی باہنی کی رگوں میں بہنے والا وہ درندوں جیسا خون ہمیں بولتا نظر آیا، اسی لئے آزادی کے چار ہی سالوں بعد اپنے "قوم کے باپ" شیخ مجیب کو ایسی بے حسی اور سفاکیت سے خون میں نہلادیا کہ ساتھ 40 لوگ اور مار دئیے۔ جب مذہب کے نام پر جذبات ابھارنے کا الزام قائداعظم پر لگایا جاتا ہے تو مجھے الزام لگانے والوں پر حیرت ہو تی ہے کہ قومیت کے نام کا جن بوتل سے نکالنے والوں کو پہچانتے ہو ئے آپکی نظر کیسے دھندلا جاتی ہے؟ قومیت کے نام پر وحشیانہ پن ابھارنے والے مظلوم ہیں؟ یاد رہے اگر تلہ میں سب سے پہلے دہشت گرد اور سازشیں کر نے والے آزادی کے بعد ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے۔پاکستان کی فوج کو تو ہم بہت کوسنے دے چکے مگر مکتی باہنی کے وحشیوں کے بارے میں کبھی کسی نے بات کی؟ یہ ہماری حکومتوں کا، ہمارے میڈیا کا اور ہمارے دانشوروں کا کام تھا۔ مگر ازلی سستی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں مجرموں کی طرح ہاتھ اوپر کر کے دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو نا آسان لگتا ہے اورخود کو کوسنا اس سے بھی سہل کام اس لئے کون ہوا کیخلاف جائے، کون وقت برباد کرے اورتاریخ کے صفحوں کو خود کھول کے دیکھے۔ "پڑھے کوئی، سنے کوئی، بھرے کوئی اور کہے کوئی"۔ یہ ہے ہمارا حال۔ مگر آج بنگلہ دیش میں ضعیف العمر لوگوں کو، بغیر شفاف ٹرائل کے جو موت کی سزائیں دی جا رہی ہیں اور اب تک چار کے قریب لوگ پھانسی پر جھول بھی چکے ہیں، ان سے قدرت نے ہم نااہلوں کی صفائی کا خود ہی بند وبست کر دیا ہے۔ جس سفاکی سے 70,90سال کے بزرگوں کو پھانسی دی جا رہی ہے اور جس قدر کھلی بدمعاشی پوری دنیا کے سامنے ہے، آج بھی ہم سارے گناہ اپنی ہی جھولی میں بھرتے رہیں تو ہم سے بڑا بدقسمت اور کم عقل روئے زمین پر کوئی نہیں ہو سکتا۔ بلوچستان میںرا کے ایجنٹ دندتاتے پھر رہے ہیں۔ جیسے بنگلہ دیش کو بنوانے میں ہمارے حکمرانوں کی نااہلی جتنی بھی ہو تی، انڈیا کی بدنیتی اور دخل اندازی کے بغیر تاریخ کا یہ باب لکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ بعد میں اس کا اعتراف پہلے میڈم اندرا اور پھر مودی صاحب بھی کرتے ہیں۔ شیخ مجیب نے بنگلہ دیش بنتے ہی کہا تھا کہ ہم آج آزاد قوم ہیں پہلے ہم پاکستان کی کالونی تھے۔ مگر یہ پھانسیاں اور شیخ صاحب کی صاحبزادی کی بھارت نواز پالیسیاں، حساس پوسٹوں پر ہندوئوں کا راج، ہمیں آج یہ کہنے پر مجبور کر رہا کہ کل بنگلہ دیش پاکستان کی کالونی تھا مگر آج بھارت کی کالونی ہے ۔ اور اگر اندرا گاندھی دو قومی نظریہ کو بحیرہ بنگال میں سچ مچ غرق کر نے میں کامیاب ہو چکی ہوتیں تو کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش بھارت کا ایک صوبہ ہو تا۔ مگر 95% مسلمان آبادی کو واپس ہندوستان لے جانا کسی خا لہ اندرا جی کا گھر نہیں تھا۔ سو دو قومی نظریہ نہیں ڈوبا، حکمران طبقے نے حسب ِ معمول اپنے مفادات کی خاطر انسانوں کا سودا کر دیا۔
بنگلہ دیش میں جمہوریت اپنی سب سے بد صورت حالت میں موجود ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے اکیلے ہی الیکشن لڑا اور اکیلے ہی جیت گئیں۔
یہ ہم سب جانتے ہیںکہ ایسی وحشیانہ زیادتیاں ہی دہشتگردی کے پنپنے کیلئے بہترین کھاد ہو تی ہیں۔ لال مسجد والے کیس کو انسانیت اور سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کیا ہو تا تو آج پاکستان میں دہشت گردی کا اژدھا انسانوں کو نگل نہ رہا ہو تا۔ خالدہ ضیاء کو کھڈے لگا کے جماعت اسلامی کو سیاسی انتقام کا نشانہ، ان پھانسیوں کی صورت میں دیکر، شیخ حسینہ دو دن حکومت میں نہیں نکال سکتی تھی، اگر ہیومن رائٹس کے انٹرنیشنل ادارے چشم پوشی سے کام نہ لے رہے ہوتے ، اگر انڈیا بنگلہ دیش کی پشت پناہی نہ کر رہا ہو تا ، اور سب بڑا " اگر" پاکستان اپنی آوا ز اتنی مدھم نہ رکھتا کہ کسی کے کان تک پہنچ ہی نہ پائے۔ تُرکی کے صدر طیب اردگان کی 4 منٹ کی ایک تقریر یو ٹیوب پر ہے جس میں انہوں نے بنگلہ دیش میں دی جانیوالی ان خوفناک اور بے شرم پھانسیوں کی نہ صرف زبانی کلامی پر زور مذمت کی بلکہ بنگلہ دیش سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا لیا ۔ پاکستان نے کیا کیا؟ حالانکہ پاکستان کے پاس ان پھانسیوں پر کر نے کیلئے 1974میں انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونیوالے معاہدے کی صورت ایک قانونی حق موجود ہے اور ایک جذباتی رنگ بھی، یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کے جرم میں مارے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کئی ایسے بنگالی، جو بہاری ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں انہیں بھی، موت سے بدتر زندگی میں بنگلہ دیش میں کیمپوں میں جھونک رکھا ہے۔ اس دوزخ سے انہیں نکا لنے والا کوئی نہیں۔ معاہدہ موجود ہے مگر دونوں حکومتیں اس سے مکر چکی ہیں اور انسان پاکستان جیسے بے وفا محبوب کی محبت کے جرم میں بے موت مارا جا رہا ہے۔ ہمارا جرم نااہلی اور اپنی ہی قوم سے بد نیتی ہے۔ باقی جن گناہوں کا ہمیں مجرم کہا جاتا ہے ان گناہوں کو کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت ہی موجود نہیں۔