جرمن پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہونے پر ترکی نے سفیر واپس بلا لیا
برلن/ انقرہ (بی بی سی+ رائٹرز) جرمنی کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران عثمانی ترکوں کے ہاتھوں آرمینی باشندوں کا قتلِ عام نسل کشی تھی۔ ادھر ترکی نے بطور احتجاج جرمن سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ ترکی نے جرمنی کے ایوانِ زیریں کی اس قرارداد کی سخت مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ آرمینیا کا دعویٰ ہے کہ 1915 میں 15 لاکھ آرمینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ ترکی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت کم تھی اور اسے نسل کشی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ فرانس اور روس سمیت 20 سے زیادہ ممالک 1915 میں ہونے والی ان ہلاکتوں کو نسل کشی مانتے ہیں۔ ترکی اس بات کی تردید کرتا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران آرمینی باشندوں کی ہلاکتیں کسی منظم سازش کا حصہ تھیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے وقت ترک باشندے بھی ہلاک ہوئے تھے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل اس رائے شماری کے دوران پارلیمان میں موجود نہیں تھیں لیکن ان کی جماعت کرسچیئن ڈیمو کریٹس سمیت تمام جماعتوں نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے جرمن چانسلر کو فون کر کے خبردار کیا تھا کہ اگر یہ قرارداد منظور ہوئی تو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں گے۔ قرارداد میں لفظ ’نسل کشی‘ استعمال کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جرمنی، جو اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کا اتحادی تھا، اس کے لیے کچھ حد تک خود کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہے کہ وہ اس نسل کسی کو روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکا۔ اس قرارداد کا وقت درست نہیں ہے کیونکہ یورپی یونین کو پناہ گزینوں سے نمٹنے میں ترکی کی مدد کی ضرورت ہے۔ ترک ڈپٹی وزیراعظم نعمان نے کہا جرمنی نے تاریخی غلطی کی اس قرار داد کا ہر سطح پر جواب دیا جائیگا۔ ترک وزیر خارجہ یہ قرار داد غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد ہے۔
قرارداد/ سفیر