مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے عوام میں دوستانہ انداز میں گھل مل جانے پر ہیلری کلنٹن کے اظہار مسرت پر مسرت ہوئی اور یہ بھی خوشی ہوئی کہ بلاول بھٹو مصنوعی انداز اختیار نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کے درمیان لیڈر کی طرح نہیں ہوتے۔ لوگ انہیں بیٹے کی طرح دیکھتے ہیں۔ کبھی تو ہو کہ لیڈر بھی بیٹا بھائی یا بزرگ ہو۔ اس کے ساتھ اپنوں جیسا کوئی رشتہ محسوس ہو۔
’’صدر‘‘ زرداری نے اپنے خلاف باتیں کرنے والے کے ساتھ بھی ہمیشہ اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی کا رویہ اختیار کیا۔ وہ ہر کسی سے ہنستے ہوئے ملے۔ ایوان صدر بھی ان کی مستقل مسکراہٹ اور ہنسی سے آباد رہا۔ لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ وہ ہروقت مسکراتے اور ہنستے رہتے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی یہ عادت نہ چھوڑی۔
بلاول کی تربیت بے نظیر بھٹو نے بھی کی ہو گی مگر ایک سیاسی شخصیت کے طور پر اصل تربیت ’’صدر‘‘ زرداری نے کی صدر زرداری نے اپنے بچوں کو نیا نام دیا بلاول بھٹو زرداری۔ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ یہ نام عام ہو گئے۔ زباں زدعام ہو گئے۔ زندگی میں نام کے بہت اثرات ہوتے ہیں۔ یہ بھٹو کے نئے زمانے کا آغاز ہے۔ کاش یہ عوام کا زمانہ بھی ہو۔ زرداری صاحب قید میں بھی ایسے تھے۔ انہوں نے قیدی اور قائد کا فرق مٹا دیا۔ عدالت کی طرف سے نا اہل کئے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی اڈیالہ جیل سے وزیراعظم ہائوس پہنچائے گئے۔ گیلانی صاحب کو ’’صدر‘‘ زرداری کا ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کوٹ لکھپت جیل سے ایوان صدر پہنچے۔ کہا جانے لگا کہ آج کل پاکستان میں قیدیوں کی حکومت ہے۔ میری ملاقات گیلانی صاحب سے اڈیالہ جیل اور آصف زرداری سے کوٹ لکھپت جیل میں ہوئی تھی۔ برادرم منور انجم اور برادرم فاروق انصاری میرے ساتھ تھے۔ پھر گیلانی صاحب سے تو رابطہ نہ ہوا مگر ’’صدر‘‘ زرداری سے کئی بار ملاقات ہوئی۔ ’’صدر‘‘ زرداری سے ملاقات میں برادرم شیخ ریاض کے بیٹے ساتھ تھے۔ اس کی شرمیلا فاروقی سے شادی ہوئی۔ اس شادی میں بھی ’’صدر‘‘ زرداری کی کوشش شامل ہونگی۔ بینظیر بھٹو نے ناہید خان اور صفدر بخاری کی شادی کرائی تھی یہ محبت کی شادی بھی تھی۔ مگر شرمیلا کی شادی تو مکمل طور پر ایک ارینج میرج تھی۔ اللہ کرے یہ شادی اچھی طرح کامیاب ہو۔ صفدر بخاری اور ناہید خان کی شادی ایک کامیاب شادی ہے۔ دونوں میاں بیوی سیاست میں ہیں مگر وہ ابھی تک اپنے اداروں میں کامیاب نہیں ہیں۔ صدر زرداری نے انہیں لفٹ نہیں کرائی مگر انہیں پارٹی کے اندر پارٹی بنانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
ہیلری کلنٹن نے پہلے بھی ایک بار بے نظیر بھٹو کیلئے محبت کا اظہار کیا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اس راستے پر عام لوگوں کے ساتھ واشنگٹن میں کھڑی ہو گئی جہاں سے بے نظیر بھٹو گزرنے والی تھی۔ امریکہ کے الیکشن میں پاکستانی عوام دلچسپی لیتے ہیں۔ صدر اوبامہ کیلئے خواہش رکھی وہ جیت گیا مگر جیتنے کے بعد وہ ہماری امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ اس دوران اس کے چہرے کا رنگ اتنا کالا نہیں رہا یہ اچھا شگون ہے مگر اس کا عملی ثبوت نظر نہیں آیا۔ ایک چمک اس کی آنکھوں میں ہے۔ ایک شعر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ عرض ہے…؎
انوکھی چمک اس کی آنکھوں میں تھی
ہمیں کیا خبر تھی بدل جائے گا
اس کی انتخابی تقریروں اور صدارتی تقریروں میں اتنا ہی فرق تھا جو ہمارے ہاں اقتدار سے پہلے دور حکومت میں ہوتا ہے۔ ہیلری کلنٹن صدر اوبامہ کے پہلے چار سالہ دور میں وزیر خارجہ تھی۔ ہمیں تب بھی خیال تھا کہ وہ مختلف وزیر خارجہ ہونگی مگر کوئی فرق نہ تھا۔ وہ دونوں روایتی صدر امریکہ اور امریکی وزیر خارجہ کی طرح تھے۔ صرف یہ کہ صدر اوبامہ کا رنگ کالا تھا اور ہیلری کلنٹن ایک خاتون تھی۔ اب پاکستان کے لوگ امریکی انتخاب میں اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہیلری کلنٹن جیت جائے وہ بھی جیتنے کے بعد کچھ احساس کرے۔ برادرم رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ بلاول کی اردو اچھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی تقریر لکھنے والے اچھے ہیں۔ ہمیں تو بلاول کی تقریر میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ اس کے خیالات سے اختلاف ہو سکتا مگر اعتراف بھی تو کرو۔ ’’بلورانی‘‘ کہنے والے شیخ رشید نے اپنے الفاظ واپس لئے یعنی معذرت کر لی۔ ہمیں اہل زبان کی طرح اس کی اردو کا جائزہ نہیں لینا چاہیے۔ اہل زبان تو رانا صاحب بھی نہیں ہیں۔ وہ کسی اہل زبان سے پوچھیں تو وہ ان کے ارشادات عالیہ میں بھی کئی خرابیاں نکالیں گے۔ رانا صاحب بھی سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت میں ایک وہ ہیں اور وفاقی حکومت میں خواجہ سعد رفیق ہے کہ اپوزیشن والے گھبراتے ہیں۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز کے بارے میں رانا صاحب کا کیا خیال ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ جب ق لیگ میں تھے تو بہتر بات کرتے تھے۔ رانا صاحب اور خواجہ صاحب کیلئے یہ اعتراض ہے کہ وہ لوٹے نہیں ہوئے۔ خواجہ سلمان رفیق بھی ایک دوستدار اور نفیس آدمی کے طور دیکھے جاتے ہیں۔ رانا صاحب اپنے بیان کے ساتھ ہیلری کلنٹن کے ریمارکس پر بھی غور کریں جو اس نے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں کیسے ہیں۔
بڑے بھٹو صاحب کی اردو بھی دوسرے سیاستدانوں سے مختلف تھی اور بے نظیر بھٹو کی بھی مختلف ہے۔ اب بلاول کے اسلوب تقریر میں ایک مختلف ذائقہ ہے جو برا نہیں لگتا۔ ان تینوں کی اردو ایک دوسرے سے بھی مختلف ہے۔ ایک مشابہت بھی ہے اور انفرادیت بھی ہے؟ اصل بات بے ساختہ پن ہے۔ مگر ایک بات میں اکثر کہتا ہوں کہ تقریر سے تقدیر نہیں بدلتی۔ اچھی تقریر کرنے کی کوشش کرنے والے یہ بھی کوشش کریں کہ عام لوگوں کی تقدیر بدل جائے۔ کبھی تو ہو کہ سیاستدان جو تقریریں کرتے ہیں۔ تقدیر بھی ویسی ہی ہو جائے۔کبھی تو ہو کہ لیڈر اور حکمران کی آرزو اور عام لوگوں کی آرزو ایک ہو جائے۔ اللہ کرے سیاستدانوں کی آرزو بدل جائے…؎
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے کہ تیری آرزو بدل جائے