بجٹ عوام دشمن: زرداری‘ حقائق سامنے لائوں گا: عمران‘ ڈرون حملہ ہے: سراج الحق
اسلام آباد /لاہور (خبرنگار خصوصی/ این این آئی/ نوائے وقت رپورٹ/ خصوصی نامہ نگار) اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی بجٹ 2016-17ء کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور کہا کہ حکومت سے ایسے بجٹ کی ہی توقع تھی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندا ہے، موجودہ حکومت نے کبھی عوام دوست بجٹ نہیں دیا، عوام کیلئے بجٹ میں کچھ بھی نہیں۔اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف کیلئے حکومت کا یہ چوتھا بجٹ تھا، عوام آج بھی اپنی فلاح و بہبود کے ضامن بجٹ کے منتظر ہیں۔ ملکی تاریخ میں ریکارڈ رفتار سے قرضے لیکر زرداری کی حکومت کو بھی مات دی گئی۔ کرپشن کیخلاف وزیر خزانہ نے ایک لفظ اپنے منہ سے نہیں نکالا۔ شیخ رشید نے کہاکہ حساب کے ہیرپھیر میں اسحاق ڈار کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ سابق صدر زرداری کہا ہے کہ حکومت نے عوام دشمن بجٹ پیش کیا ہے۔ پیپلزپارٹی تفصیلی طور پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بجٹ پر اپنی رائے دے گی‘ بجٹ میں اہم مسائل کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جیسا کہ دستاویزی معیشت، ریونیو جمع کرنے میں بہتری، ٹیکس چوری روکنے اور غریب اور امیر کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق جیسے مسائل کے بارے بجٹ میں کچھ نہیں۔ یہ بجٹ زرعی شعبے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے انحطاط کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہوگیا اور اسی طرح سرکاری ملازمین کی مایوسی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ بجٹ میں ماحولیاتی‘ موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بھی کچھ نہیں‘ جی ڈی پی تناسب‘ بیروزگاری‘ افراط زر سے متعلق اعدادو شمار حکومت نے غلط بتائے‘ حکومت نے اعدادوشمار میں ہیرپھیر کی پاک چین اقتصادی راہداری معاشی ترقی کی کنجی ہے‘ حکومت نے بلوچستان اور خیبر پی کے میں بڑھتی مایوسی پر کچھ نہیں کیا۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا حکومت نے فلاحی نہیں انتظامی بجٹ پیش کیا ہے جس کے تمام اندازے غلط اور فرضی ہیں۔ بجٹ بھی امیروں کا بجٹ ہے اور غریبوں پر ڈرون حملہ ہے،تعلیم صحت ،ماحولیات اور انسانی ترقی کے دیگر منصوبوں کے بجٹ میں اضافہ ہونا چاہئے تھالیکن حکومت بمشکل اپنے انتظامی اخراجات پورے کرنے کیلئے ٹیکسوں کے ہیر پھیر میں الجھی رہی۔ حکومت کی زرعی پالیسی کسانوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے بجٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل نہیں کیونکہ طاقتور ٹیکس چھپاتے ہیں۔ بجٹ سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لاؤنگا۔ طاقتور لوگ کرپشن کا پیسہ منی لانڈرنگ کر کے باہر بھجواتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم پارلیمنٹ میں جھوٹ بولتا ہے تو لوگ کیوں ٹیکس دینگے۔ عوام کو موجودہ حکمرانوں پر ہی اعتماد نہیں تو وہ کیوں ٹیکس دینگے۔ موجودہ حکومت ایک بادشاہت کی مانند ہے اور مافیا طرز عمل ہے۔ اپوزیشن میں ہیں اور ہم صرف نشاندہی کرتے ہیں۔ اپوزیشن حکومت سے جواب مانگتی ہے اور حکمران جواب ہی نہیں دیتے تو پارلیمنٹ کا فائدہ کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ ن کو ’’ناکام لیگ‘‘ قرار دیا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ حکومت پچھلے سال کی طرح اس سال بھی جی ڈی پی سمیت تمام اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ بجٹ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کا ہتھکنڈہ ہے۔ روایتی بجٹ پیش کیا گیا۔ زرعی شعبے سے کھلواڑ ہوا ہے۔ روایتی بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ تمام بڑے شہروں کیلئے بھی ترقیاتی پیکجز ہونے چاہئیں۔ کراچی کو سی پیک منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے بجٹ تقریر پر کہا کہ بہت سی مراعات کا اعلان صوبوں کی شیئرنگ کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ بجٹ ماضی کی کہانی ہے جو پہلے 3سال سن چکے تھے، چوتھے سال بھی وہی سن لی۔ طاہر القادری نے کہا کہ حکومت کے وسائل اپنے ہیں نہ پالیسیاں ، بجٹ سے کشکول کا سائز بڑا اور خودکشیوں میں اضافہ ہو گا۔ غریب کو سستی روٹی ،تعلیم ،صحت دینے اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کا کوئی ٹھوس پلان شامل نہیں ہے، ملازمین اور پنشنرز کے ساتھ ہمیشہ کی طرح مذاق کیا گیا۔ حکمران مزید مسلط رہے تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ غیر ملکی ’’مہاجنوں ‘‘کا تیار کیا گیا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ایک وقت کی چائے پر 14 ہزار خرچ کرنیوالے حکمران 60فیصد سے زائد انتہائی غریب ملکی آبادی سے کہہ رہے ہیں کہ 14 ہزار میں پورا مہینہ گزارو۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے کہ حکومت ہمیشہ کہتی ہے بجٹ بہت اچھا ہے۔ عوام کہتے ہیں برا ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ سیشن میں معاشی اہداف کی ناکامی پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خورشید شاہ کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کی شیریں مزاری، اے این پی کے غلام احمد بلور، ایم کیو ایم کے خالد مقبول اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید ،سینٹ قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن ،صاحبزادہ طارق اللہ و دیگر بھی شریک تھے۔اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بجٹ کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر غورکیا گیا۔