بجلی بحران ختم کرنے کیلئے بجٹ میں کم رقم رکھی گئی: ماہرین
لاہور (ندیم بسرا) حکومت کی طرف سے کسی بڑے ڈیم بنانے اور تعمیر کے اعلان نہ ہونے سے بجلی کا بحران 2018ء تک عوام کا پیچھا نہیں چھوٹے گا۔ 2016ء کے بجٹ میں پانی، توانائی اور گیس کے بحران کو خطرناک قرار دیا ہے۔ انجینئر ضیاء لطیف نے کہا کہ جب تک ملک کے اندر کوئی بڑا آبی ذخیرہ کا منصوبہ شروع نہ ہو تب تک ملک سے بجلی کا بحران کم نہیں ہو گا۔ انجینئر میاں سلطان نے بتایا کہ اس بجٹ میں اگر کسی بڑے منصوبے کے شروع ہونے کا اعلان کر دیا جاتا تو قوم کو ایک ریلیف یا امید کی کرن نظر آ جاتی۔ حکومت کی طرف سے ہوا میں منصوبے یا کاغذوں میں منصوبوں کے بنانے پر عملی طور پر بحران ختم نہیں ہو گا۔ دوسری طرف ذرائع کا کہنا ہے کہ اس برس ملک میں بجلی کی طلب 24 ہزار میگا واٹ تک ہونے کا قوی امکان ہے جبکہ نیشنل گرڈ میں 17 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی بنانے یا برداشت کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ جب تک این ٹی ڈی سی سسٹم کو بہتر نہیں بنایا جاتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کا بجلی کا سسٹم اوورلوڈ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جنگی بنیادوں پر سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کریں کیونکہ صارفین کی طرف سے ہر برس 14 سو میگا واٹ سے 16 سو میگا واٹ تک طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑے آبی ذخائر دیامیر بھاشا، داسو جیسے دو اہم منصوبوں کیلئے 74 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس رقم سے ان منصوبوں کیلئے ڈیم کا مین کوئی کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ صرف زمین خریداری جیسے مسائل ہی حل ہوں گے۔ حکومت نے نیلم جہلم کیلئے 61 ارب روپے رکھے ہیں جس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 969 میگا واٹ کا یہ منصوبہ 2016ء کے سال میں مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔