محمد علی ....................باکسنگ کی شہرہ آفاق شخصیت
باکسنگ کی شہرہ آفاق شخصیت محمدعلی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں (آمین )....... انہیں بلاشبہ رہتی دنیا تک عظیم ترین کھلاڑی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کے انتقال کی خبر دنیا بھر میں آگ کی طر ح پھیلی،بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ان کے انتقال کی خبر شہ سرخی کے طور پر براڈکاسٹ کی۔ الیکٹرانک میڈیا ،اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کے انٹرنیٹ ایڈیشن اور بلاگس پر ان کی نہ صرف خبریں چلائی گئیں بلکہ خصوصی پروگرام بھی نشر کئے گئے جو رات گئے تک جاری تھے۔ امریکہ کی ریاست کینٹکی سے تعلق رکھنے والے باکسر محمد علی پہلے کیسیئس کلے کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن سونی لسٹن کے خلاف 25 فروری سنہ 1954 کو ہونے والے اہم مقابلے کے اگلے ہی روز انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اسلام قبول کر رہے ہیں اور اپنا نام بدل کر محمد علی رکھ رہے ہیں۔محمد علی 32سال سے پارکنسن کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اور اسی بیماری کے باعث انہوں نے باکسنگ کو خیر آباد بھی کہا۔ انہوں نے اپنے کیریر میں 61فائٹس کیں جن میں سے انہیں 56بار کامیابی نصیب ہوئی۔ محمد علی نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیابھر اور بالخصوص پاکستان کے عوام میں بے حد مقبول تھے۔ وہ 1987ء میں ایک ہفتے کے دورے پر پاکستان بھی آئے۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال راقم الحروف کو ابھی تک یاد ہے۔ دورہ پاکستان کے دوران انہوں نے تین روز لاہور میں بھی قیام کیا۔ اس وقت موجودہ وزیر اعظم محمد نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ محمد علی اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے داتا گنج بخش کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ لاہور میںان کے قیام کے دوران انہیں ایک کبڈی میچ بھی دیکھایا گیا تھا اور وہ اس سے بے حد محظوظ ہوئے تھے۔ وہ کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری بھی گئے جہاں باکسنگ کا کھیل بھے حد مقبول تھا۔ اسلام آباد،لا ہور اور پھر لیاری کے عوام نے ان کا اس انداز میں استقبال کیا کہ محمد علی کو کہنا پڑا کہ میرا بس چلتا تو میں پاکستان میں ایک ہفتے کی بجائے ایک ماہ قیام کرتا۔ محمد علی نے پاکستان کے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں باکسنگ رنگ میں بے شک ایک جارحانہ کھلاڑی تھا مگر عام زندگی میں ایک دھیمی طبیعت کا انسان ہوں۔ اور اب میں ایک مبلغ اسلام ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے سیاہ فام لوگوں کے بھی ترجمان ہیں ۔آج لیاری کی فضا اسی طرح سوگوار ہے گویا ان کے اپنے کسی عزیز کی وفات ہو گئی ہو۔ لیاری کے ایک بزرگ باکسر شیر محمد کا کہناتھا کہ ہم کبھی بھی محمد علی کو نہیں بھول پائیں گے۔ لیاری کے عوام نے بلیک اینڈوائٹ ٹی وی پر محمد علی کی فائٹس دیکھ دیکھ کر باکسنگ شروع کی۔ آج وہ اس دنیا میں نہیں مگرہماری نوجوان نسل اس بات کا عہد کرتی ہے کہ ان شاء اللہ لیاری سے ہی ایک اور محمد علی باکسر ابھر گا اور ور دنیا بھر میں نہ صرف پاکستان کا بلکہ محمد علی باکسر کا نام بھی روشن کرے گا ۔محمد علی کا باکسنگ کے کھیل میں آنا بھی ایک اتفاق تھا۔ اگر12سال کی عمر میں ان کی بائیسیکل چوری نہ ہوتی تو شاید دنیا انہیں ایک عظیم باکسر کی صورت میں نہ دیکھتے۔ ایک تقریب میں جب وہ واپس ہوئے تو ان کی بائیسیکل کوئی چور لے اڑا تھا۔ وہ اس قدر طیش میں تھے اور اسی غصے میں انہوں نے وہاں کے انچارج سے کہا اگر وہ چور مجھے نظر آجائے تو میں اس کا بھرکس نکال دوں ۔ سنٹر کے انچارج نے ان کے غصے(Agression)کو دیکھتے ہوئے انہیں باکسنگ کھیلنے کا مشورہ دیا اور اسی سنٹر کے انچارج ان کے پہلے انسٹرکٹر/کوچ بھی بنے، صرف ڈیڑھ ماہ کی تربیت کے بعد ہونے والی پہلی فائٹ میں انہیں کامیابی ہوئی اور اس کے بعد ان کی کامیابی کا نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہو گیا۔