مسئلہ کشمیر کا حل علاقائی امن کیلئے ضروری ہے
بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے گزشتہ روز بھارتی ٹی وی کے ایک پروگرام میں پاکستان پر اچھے اور بُرے دہشت گردوں میں تفریق کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ میں سنجیدہ اور مخلص نہیں چنانچہ مودی نے مذاکرات کی جو کھڑکی کھولی تھی، وہ آہستہ آہستہ بند ہو رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ ہے اور جس کی وجہ سے خطے کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں ، اس کے بارے کہا کہ اس مسئلے میں بھارت کا موقف بڑا واضح ہے۔ یہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے اس پر کبھی سودے بازی نہیں کریں گے ایک دن قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی جو سالانہ رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اہم اتحادی تو قرار دیا گیا لیکن ساتھ ہی بعض گروپوں کی خلاف زیادہ موثر کارروائی نہ کرنے کا شکوہ بھی کیا گیا ہے حالیہ برسوں میں بھارت امریکہ تعلقات میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ بھارت خطے میں بالادستی حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا ہے اور امریکہ کی آشیر باد سے گولہ بارود اور اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا ہے۔ پاکستان اگرچہ اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا لیکن اپنی قومی سلامتی اور ملکی دفاع سے بھی غافل نہیں۔ پاکستان بحریہ کے چیف نے بجا طور پر باور کرایا ہے کہ پاکستان کی امن پسندی کی خواہش کمزوری نہیں اور نہ اسے دھمکایا جا سکتا ہے۔ جبکہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے دوٹوٹک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کس طرح پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ بھارت سے جب بھی مذاکرات ہوئے، مسئلہ کشمیر شامل ہو گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کرانے پر تیار ہے۔ یہ پیشکش اپنی جگہ لیکن سیکرٹری جنرل اگر اقوام متحدہ کی ثالثی کے بجائے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود قراردادوں پر اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بھارت پر عالمی دباﺅ ڈالیں تو اس کے اثرات زیادہ موثر ہوں گے وگرنہ خطے میں قیام امن ایک خواب ہی رہے گا اور دہشت گردوں کے عفریت سے بھی نجات نہیں ملے گی۔