تنخواہیں زیادہ بڑھائی جائیں، لوڈ شیڈنگ2018 ء میں بھی ختم نہیں ہو گی : خورشید شاہ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں کورم پورا نہ ہونے پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ برہم ہو گئے۔ انہوں نے کہا ایوان خالی دیکھ کر افسوس ہوا۔ اکیلے کافی ہوں لیکن حکومت کی بے عزتی ہو گی۔ حکومت کو چاہئے خالی ایوان رکھنے کی بجائے 20منٹ کا وقفہ لے لے۔ انہوں نے اپنی تقریر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حوالے کرتے ہوئے کہا اسے صرف کارروائی میں شامل کرلیں۔ انہوں نے کہا تقریر کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیں کافی ہے۔ وزیر خزانہ خود حکومتی ارکان کی حاضری دیکھ لیں۔ انہوں نے کہا اعداد و شمار کا جائزہ لیا لیکن اس پر بات کے لئے ایوان خالی ہے، میں کس کو سنائوں۔ انہوں نے کہا عوام دوست بجٹ کی خواہش سب کو ہوتی ہے‘ ہر حکومت کہتی ہے ماضی کی حکومت کی وجہ سے بجٹ بنانا مشکل تھا۔ ملک کے جتنے ماہرین معیشت ہیں وہ اس بجٹ کو دیکھ کر گھبراتے ہیں۔ اس بجٹ کی کوئی سمت نہیں۔ انہوں نے کہا اس طرح کے بجٹ وفاق کیلئے نقصان دہ ہیں۔ جب خود سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو باہر سے کون آئے گا۔ رواں سال ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی‘ جی ڈی پی نمو 4.7 ظاہر کی گئی۔ ماہرین ساڑھے 3 فیصد بناتے ہیں۔ عالمی بنک کے مطابق پاکستان سب سے نچلے درجوں میں ہے۔ آئیں اس ایشو پر اکٹھے ہو جائیں مل کر مسئلے کا حل نکالیں۔ پاکستان رہے گا لیکن ہم نہیں رہیں گے‘ نسلوں کو اچھا پاکستان دیں‘ بجٹ میں سارا پی ایس ڈی پی کا دھارا ایک ہی طرف بہہ رہا ہے۔ سندھ نے ہمیشہ وفاق کو مضبوط بنانے کیلئے ووٹ دیا۔ پنجاب کا ماحول کوئلے والے بجلی گھروں سے متاثر ہو گا۔ ساہیوال میں کوئلہ پلانٹ لگانے سے 30فیصد آبادی بیماریوں کا شکار ہوگی‘ لوگوں کو ود ہولڈنگ ٹیکس لگاکر ٹیکس چوری پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ٹیکس کا دائرہ اسی لئے نہیں بڑھتا‘ 0.7فیصد لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی شدید خطرہ ہے جس کا کسی کو احساس اور خیال نہیں۔ زراعت میں منفی گروتھ ہوئی‘ 2012ء میں 7.8تھی۔ پانامہ کی وجہ سے ہم سب آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم کیلئے دعاگو ہوں اللہ صحت عطا کرے۔ وزیراعظم پر مصیبت آ گئی‘ ٹینشن ہے۔ پی ایس ڈی پی میں 982 سکیمیں ہیں ان میں 4ٹریلین کے اخراجات ہیں۔ مولانا نے ایسا وظیفہ پڑھا‘ چالیس پچاس ارب روپے کی سکیمیں مل گئیں۔ ہر بندہ دعا کرے گا ہر سال پانامہ ہو‘ مولانا صاحب پاکستان کو پانامہ سے بچائیں۔ مزید برآں پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا بجٹ بغیر کسی پلاننگ کے تیار اور پیش کیا گیا ہے۔ تعلیم سمیت اہم شعبوں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کیا گیا۔ حکومت متحدہ اپوزیشن کو سڑکوں پر دھکیلنے سے باز رہے‘ حکومت کو پانی سر سے گزرنے کے بعد خیال آتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ٹی او آر پر ڈیڈ لاک موجود ہے‘ حکومت لچک نہیں دکھا رہی‘ حکومت کو ایک قدم پیچھے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا حکومت اپوزیشن کو سڑکوں پر دھکیلنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے پاس سڑکوں پر جانے کا آخری آپشن ہے۔ انہوں نے بجٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا بجٹ میں کہیں نہیں بتایا گا حکومت کی ترجیحات کیا ہیں‘ تعلیم سمیت کئی شعبوں کا بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کیا گیا۔قبل ازیں خورشید شاہ تقریر کرنے سے انکار کرتے رہے۔آئی این پی کے مطابق خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ 2016-17ء پر عام بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں خراب معیشت کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافہ کیا، موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مراعات یافتہ طبقات کو مزید مراعات دینے کی بجائے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 10فیصد کی بجائے پیپلز پارٹی کے دور میں کئے گئے اضافے کے مطابق بڑھائیں، حکومت میڑو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر نے کی بجائے تعلیم اورصحت کے منصوبوں کے لئے فنڈز مختص کرے ، حکومت 8 سو ارب روپے کا پی ایس ڈی پی داسو ،بھاشا اور پونجی ڈیم کی تعمیر کے لئے وقف کرے ہم ساتھ رہیں گے ۔ دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ حکومت کے 2018 میں لوڈ شیڈنگ ختم کے دعوے غلط ثابت ہوں گے ۔ 2018 میں بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کر سکیں گے اگر پی ایس ڈی پی کا دریا صرف پنجاب میں بہتا رہا تو فیڈریشن خطرے سے دوچار ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا حکومت ہمیشہ کہتی ہے مشکل حالات میں بجٹ پیش کر رہے ہیں یہ تاریخی ڈائیلاگ ہر دور کی حکومت کہتی ہے ۔ اس موجودہ بجٹ کو دیکھ کر معاشی ماہرین بھی گھبرا گئے ہیں کیونکہ اس میں کوئی سمت واضح نہیں۔ بجٹ کو کسی طور پر بھی عوام دوست نہیں کہا جا سکتا ۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں فیڈریشن کو مضبوط کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں فیڈریشن کمزور ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈار صاحب نے گزشتہ بجٹ میں اسلام آباد سے مری اور مظفر آباد کے درمیان ٹرین سروس شروع کرنے اور کشمیر ٹرین کے نام سے نئی کمپنی بنانے کا اعلان کیا مگر آج تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ، شاید اس منصوبے کے فنڈز اورنج ٹرین لاہورمیں منتقل کر دئیے گئے ہیں ۔ ساہیوال پاور اسٹیشن کی پیداواری گنجائش 13سو میگاواٹ ہے،یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا مگر اس کی ٹرانشمیشن لائن نہیں ہے ، ساہیوال پنجاب کی گرین سٹی ہے اس کول پراجیکٹ کی وجہ سے اس کی آدھی آبادی 15سال میں آلودگی سے بیماری ہو جائے گی ۔ نندی پوری کے منصوبے پر بڑے ڈھول بجائے گئے کہ پاکستان روشن ہو جائے گا مگر وزیر اعظم کے افتتاح کر کے واپس آتے ہی یہ پاور اسٹیشن اندھیرے میں ڈوب گیا۔ آج پاکستان میں لوڈ شیڈنگ 14گھنٹے ہے ، کیا پاکستان کے دیہاتی علاقے ملک کا حصہ نہیں ہیں ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کا شارٹ فال 3ہزار میگاواٹ ہے اصل میں یہ شارٹ فال 6ہزار میگاواٹ سے زائد ہے۔ آنے والے برسوں میں پاکستان کو بہت بڑا آبی مسئلہ درپیش ہو گا، ہم نے آبی ذخائر بنانے پر بھی نہیں سوچا جس کے ہم سب ذمہ دار ہیں ، پاکستان کی 40فیصد آبادی زراعت سے منسلک ہے مگر حکومت نے اس شعبے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
اسلام آباد ( نا مہ نگار +این این آئی+ صباح نیوز) سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے کہا ہے کم سے کم آمدن 14 ہزار ہے جس سے گھر نہیں چلتا‘ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے ٗ بلوچستان اور قبائل کو ان کا حق دیا جائے، حقائق کی جانب حکومت کی توجہ دلاتے رہیں گے جبکہ حکومتی ارکان نے اپوزیشن کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا پاکستانی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہے، میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی ضرورت ہے ٗ سی پیک کو متنازعہ نہ بنایا جائے، منصوبے سے ملک ایشین ٹائیگر بنے گا۔ سینٹ میں باقاعدہ طور پر بجٹ 2016-17ء پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ ایوان بالا میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا 18ویں ترمیم کے بعد بھی ملک ویسے ہی چل رہا ہے 18ویں ترمیم پر عمل کرتے ہوئے صوبوں کو حقوق نہ دیے گئے تو وفاق کو خطرہ ہو گا آج جو سی پیک پر ہمارے ساتھ ہو رہا ہے یہ بہت بڑا ظلم ہے ہمارے ملک کا وزیراعظم وہ بن رہا ہے جس کو اپنے باپ دادا کی قبروں کا بھی پتہ نہیں ہوتا یہ کون کر رہا ہے، سی پیک انچارج اور وزیر پٹرولیم کو کہتا ہوں کہ چھوٹے صوبوں کو ان کا حق کیوں نہیں دیا جارہا بجٹ میں ٹی ڈی پیز کے لیے رکھا گیا فنڈ انتہائی کم ہے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا موجودہ بجٹ میں نوجوانوں اور تعلیم کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ سینیٹرز نے کہا پاکستان کو تباہی سے بچانا ہے تو کالاباغ ڈیم بنانا انتہائی ضروری ہے۔ سینیٹر میاں عزیز نے کہا ایسے حالات میں جب ہر روز حکومت ختم ہونے کی تاریخ دی جاتی ہے موجودہ بجٹ بہترین ہے اپوزیشن کا کام بجٹ میں کیڑے نکالنا ہے اگر کہا جائے کہ یہ کسان دوست بجٹ ہے تو غلط نہ ہو گا۔سینٹ میں اپوزیشن نے بجٹ پر کڑی تنقید کی جبکہ حکومتی ارکان نے اسے متوازن قرار دیا‘ ایوان بالا میں صنعتی یونٹس کی بندش اور آف شور کمپنیوں کا بھی شور سنا گیا۔ الیاس بلور و دیگر نے کہا ملک کو بچانا ہے تو 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کرنا ہو گا فاٹا‘ بلوچستان اور کے پی کے کو زیادہ فنڈز دئیے جائیں جبکہ چودھری تنویر و دیگر ارکان نے کہا وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دیوالیہ ہونے کے قریب ملک کو مشکل حالات سے نکالا‘ بجٹ کو متوازن قرار دیا۔ اپوزیشن کے سینیٹرز نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا حکمران آف شور کمپنیاں بنا رہے ہیں جبکہ ملک میں صنعتی یونٹس بند ہو رہے ہیں، فینسی منصوبوں پر پیسہ لگایا جا رہا ہے جن کا ٹھیکہ غیرملکی کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے، سٹاک ایکسچینج جوا خانہ بن چکا ہے، سٹاک ایکسچینج میں جواری بیٹھے ہیں جو محنت کے بغیر پیسہ بنارہے ہیں، بجٹ میں صوبوں کو انکا حق نہیں دیا گیا، ملک ایسے ہی چلتا رہا تو ملک نہیں بچے گا، ملک کو بچانا ہے تو 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کیا جائے، فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے حالت جنگ میں ہیں ان کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں زیادہ فنڈز دیئے جائیں، کرپشن کی روک تھا م اور ایف بی آر کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا، پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر سعید غنی نے کہا میثاق جمہوریت کے بعد میثاق معیشت کے علاوہ میثاق آبی ذخائر بھی ہونا چاہئے۔ چیئرمین سینٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کالاباغ ڈیم کا معاملہ متنازعہ ہے جب تک تین صوبائی اسمبلیاں قراردادیں واپس نہیں لیتیں۔ بیوروکریٹس کو ان قراردادوں کا احترام کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی میں فاروق ستار کو حکومت کی جانب سے اپنی باری پر خطاب کا موقع دینے پر تحریک انصاف نے شدید احتجاج کیا۔ شاہ محمود قریشی اور شیخ آفتاب میں جھڑپ ہوئی اور تلخ جلموں کا تبادلہ ہوا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ افہام و تفہیم کرانے میں ناکام رہے۔ معاملات ڈپٹی سپیکر کے کنٹرول سے باہر ہو گئے اور سردار ایاز صادق نے آکر معاملہ کو سلجھایا۔ خورشید شاہ کا خطاب ختم ہوا تو فاروق ستار کو ڈپٹی سپیکر نے خطاب کے لئے کہا۔ اس پر تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی اور دیگر نے شدید اعتراض کیا۔ حکومتی رکن شیخ آفتاب نے وضاحت کی فاروق ستار نے کہا میری مجبوری ہے جانا ہے حکومت کی جانب سے باری مجھے دی جائے اور پھر میری باری پر حکومت کا رکن خطاب کرے اس لئے حکومت نے اپنی باری فاروق ستار کو دی ہے۔