• news

بجٹ عوام دشمن ہے، آف شور کمپنیوں سے متعلق فنانس بل میں ترمیم ہوئی تو قوم کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے گا: اپوزیشن

اسلام آباد (این این آئی+ اے این این+ آئی این پی) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے آئندہ مالی سال 2016-17ء کے بجٹ پرشدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ سے جرائم اور دہشتگردی میں اضافہ ہو سکتا ہے، بجٹ میں مفلوک الحال لوگوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، سابق دور کی کارکردگی یقینا بری تھی، موجودہ حکومت کا دور اس سے بھی بدتر ہے، ملازمین کی تنخواہ میں کم از کم بیس فیصد اضافہ کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پربحث کے دوران ایم کیوایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہمارے ہاں منصفانہ ٹیکسوں کا نظام نہیں، پروگریسو ٹیکسیشن کی جائے، ودہولڈنگ ٹیکس غنڈہ ٹیکس ہے جو واپس لیا جائے۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت 20 ہزار روپے ہونا چاہئے، ملازمین کی تنخواہ میں کم از کم بیس فیصد اضافہ کیا جائے، کاغذ قلم پر سترہ فیصد ٹیکس لگانا تعلیم کے خلاف سازش ہے، بجٹ سے جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہو سکتا ہے جب کہ بجٹ میں مفلوک الحال لوگوں کو دیوارسے لگایا جا رہا ہے۔ ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا چاہئے، وفاق کو زرعی ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ داری دی جائے، پبلک سیکٹر پروگرام عوام کے امنگوں سے مطابق نہیں رکھتا، نیشنل ایکشن پلان کی اونرشپ پاکستان کے عوام کے پاس ہونی چاہئے، انکم ٹیکس کے قانون میں ریذیڈنٹ اور نان ریذیڈنٹ کی تفریق ختم کرنا ہوگی جب کہ پراپرٹی اور کیپیٹل مارکیٹ پر ٹیکس سے یہ شعبے تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔ اقتصادی راہدری کے حوالے سے انہوںنے کہا کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ انتہائی اہم ہے، 70 ارب کی کیپیٹل مارکیٹ کو تباہ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ٹی او آر کے حوالے انہوں نے کہاکہ اپوزیشن جتنے مرضی اور جیسے چاہے ٹی او آرز بنا لے پانامہ کا بیل منڈھے چڑھنے والا نہیں، جب قانون ہی ان کو پکڑنے کے قابل نہیں تو ٹی او آر کیا کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا زرداری حکومت پر ہم تنقید کرتے رہے، موجودہ حکومت بھی تنقید کرتی رہی، سابق دور کی کارکردگی یقینا بری تھی مگر موجودہ حکومت کا دور اس سے بھی بدتر ہے، سرمایہ کاری کے اعداد و شمار زرداری دورسے بھی کم ہو گئے، زرداری دور میں قرضوں میں بارہ سو ارب روپے سالانہ اضافہ ہوا، موجودہ حکومت قرضوں میں دو ہزار ارب روپے سالانہ اضافہ کر رہی ہے۔اسد عمر نے کہا کہ سرکاری اداروں کے ملازمین تنخواہوں اور پنشن سے محروم ہیں، جس رفتار سے بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں حسین نواز کے پوتے تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایل این جی پر کمیشن سے لندن میں فلیٹ خریدے گئے، ملک خوشحال ہوا تو بدترین بیروزگاری کی کیا وجہ ہے، بیروزگاری کے باوجود گیس پر2 اور بجلی پر3 نئے ٹیکسوں کا نفاذ کیا گیا، قانون میں لکھا جا رہا ہے کہ آف شورکمپنیاں بنا نے والے اثاثہ جات کی تفصیلات بتانے کے بجائے صرف ٹیکس دیں گے۔ پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کے لئے نیا بورڈ تشکیل دیا جائے۔ بجلی‘ پٹرول اور گیس پر سے ٹیکس کم کرکے عوام کو ریلیف دیا جائے۔ بجٹ میں کرپشن کے سدباب کے لئے کوئی اقدامات تجویز نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مزدور کی کم سے کم اجرت کے برابر پنشن کی جائے۔ سرکاری ملازمین کے لئے نئی ہائوسنگ سکیم کا اعلان کیا جائے۔ وفاقی حکومت بھی صوبوں کی طرح کم تنخواہ پانے والے ملازمین کے پے سکیل پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا ڈار صاحب آپ نمازی ہیں کچھ تو خدا کا خوف کریں ۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے کہا موجودہ دور حکومت میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں ریکارڈ کمی ہوئی لیکن عوام کو اس کے ثمرات نہیں مل رہے۔ وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ شرع نمو اور دوسرے حوالوں سے حکومت کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار غلط ہیں، اسحاق ڈار نے وفاقی ادارہ شماریات اور سٹیٹ بنک میں اپنے بندے لگا رکھے ہیں، گندم کی سرکاری قیمت 1340 روپے من کی بات کی غلط ہے حقیقت یہ ہے فلور ملیں کسانوں سے 1140 روپے فی بوری خرید رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے شماریات اور سٹیٹ بینک میں اپنا بندہ لگایا ہوا ہے میں ایوان میں چیلنج کرتا ہوں حکومتی گروتھ ریٹ 4.7 غلط ہے درحقیقت یہ گروتھ ریٹ 3.1 سے 4 تک ہے۔ نندی پور بنانے والی کمپنی بلیک لسٹ ہے جس نے بھی قومی دولت لوٹی وہ قومی مجرم ہے جب تک اوپر سے کرپشن ختم نہیں ہوگی ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ اگر پانامہ لیکس کا صاف احتساب ہو جائے تو جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ مسلم لیگ ن کے سردار اویس خان لغاری نے کہا کہ کے پی کے حکومت اپنا بجٹ تیار کرنے سے قاصر ہے جو ہمیں یہاں کھڑے ہو کر لیکچر دیتے ہیں اور بجٹ کے اعداد و شمار کو غلط کہتے ہیں لودھراں کے ایک حلقے کے ضمنی الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے شیخ صاحب کو پتہ ہے کہ وہ لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے کیوں سیاست میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا یوتھ لون سکیم سے ڈیڑھ لاکھ لوگ مستفید ہو جکے ہیں 36 ارب یوریا میں سبسڈی دی گئی ہے کسان پیکج سے کسانوں کو 100 ارب کی بچت ہو گی۔ جے یو آئی ف کی نعیمہ کشور نے کہا کہ سبسڈی کھاد اور ادویات پر دی گئی ہے جس سے زراعت کو فائدہ ہو گا، بجٹ نہایت اچھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے قائدین وفاقی بجٹ میں کیڑے نکالنے کی بجائے کے پی کے کی فکر کریں جہاں ان کی حکومت کو بجٹ پیش کرنے میں ہی مشکلات کا سامنا ہے، شیخ رشید کی باتوں کو کوئی سیریس نہیں لیتا، وہ رات کو ایک لیڈر کو بلو رانی کا خطاب دیتے اور صبح اسے شہزادہ قرار دیتے ہیں، بجٹ میں زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے اقدامات قابل قدر ہیں۔ اے این این کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلا س میں نئے وفاقی بجٹ پر گرما گرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن نے شدید تنقید کی اور ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ ڈالنے اور نان فائلرز کو چھوٹ دینے کا الزام لگایا۔ فاروق ستار نے کہا ترجیحات کو ٹھیک کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ حکومت کو سڑکوں، پلوں، میٹرو پر پیسے لگانے کی بجائے صحت ، تعلیم پر پیسے لگانے کی ضرورت ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں کو محتاج بنا رہے ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور آپریشن ضرب عضب ہونے کے باوجود سرمایہ کاری میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا؟ آئی این پی کے مطابق پیپلز پارٹی کی رکن عذرا افضل نے کہا حکومت تمام تر دعوئوں کے باوجود جی ڈی پی گروتھ کا ہدف حاصل نہیں کر سکی، 4.7فیصد گروتھ کے اعداد و شمار بھی مشکوک ہیں جنہیں ماہرین چیلنج کر رہے ہیں، ایف بی آر محصولات کا ہدف حاصل کرنے اور معیشت کو دستاویز بنانے میں ناکام ہو گی۔ مسلم لیگ ن کے رجب علی بلوچ نے جواب دیتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی والے آج ہمیں نصیحتیںکرنے کی بجائے اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں عمل کر لیتے تو ہمیں 3سال ان کا گند صاف نہ کرنا پڑتا، ہماری حکومت پر کرپشن کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کے دور میں ہر ہفتے 400ارب کی عجب کرپشن کا غضب سکینڈل سامنے آتا تھا۔ عذرا افضل نے کہا کہ زراعت میں منفی گروتھ کی وجہ سے جی ڈی پی گروتھ کا مطلوبہ ہدف پورا نہیں کیا جا سکا، بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے حکومت نوٹ چھاپنے اور قرضوں کا سہارا لیتی ہے، برآمدات میں کمی کی وجہ سے درآمدات برآمدات کا توازن بگڑ گیا ہے، تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بجٹ کے خسارے اور درآمدات برآمدات کا عدم توازن لمحہ فکریہ ہے، پراپرٹی گیس ٹیکس نہ لگنے کی وجہ سے نقصان ہو رہاہے، پراپرٹی انڈرویلوشو کرنے کی حوصلہ شکنی کے لئے قانون سازی ضروری ہے، ایف بی آر محصولات اور معیشت کو دستاویزی بنانے میں ناکام رہا ہے، این ایف سی اورمردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ کے اعدادوشمار کا درست ا ندازہ لگانا مشکل ہے۔ رجب علی بلوچ نے کہا کہ خورشید شاہ نے3گھنٹے کی تقریر میں جو ہدایات دیں اچھاہوتا ان پر عمل درآمد اپنے دور میں کرلیتے، پی ایس ڈی پی کا بجٹ ڈیموں کی تعمیر کے لئے رکھنے کی تجویز خورشید شاہ نے دی لیکن اپنے 5 برسوں میں 1 ڈیم پر کام شروع نہ کیا، پیپلز پارٹی والے اپنے گریبان میں جھانکیں انکے دور میں 400ارب روپے سے کم کا کوئی سکینڈل نہیں ہوتا تھا۔ جماعت اسلامی نے وفاقی بجٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے الفاظ کا گورکھ دھندہ اور اعداد و شمار کی جادوگری قرار دے دیا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کے 100 ارب روپوں کی تقسیم کی تمام تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں، اس پروگرام پر 550 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود معاشرے میں غربت کے خاتمے کے کوئی آثار دیکھائی نہیں دے رہے، ایوان صدر کے اخراجات میں 3 کروڑ اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں 6 کروڑ روپے کا اضافہ قابل مذمت ہے، صدر اور وزیراعظم کفایت شکاری اختیار کریں۔ تحریک انصاف کے رکن اسد عمر نے کہا ملک میں دولت ٹھکانے لگانے کے لیے آف شور کمپنیاں ٹیکس ودیگر مالیاتی اداروں سے خفیہ رکھنے کا قانون بنایا گیا تو قوم کا جمہوریت سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔ حکومت اس قسم کی ترمیم کا ارادہ ترک کر دے، قومی اسمبلی کو اس قسم کے مالیاتی بل کو منظور کرنے سے انکار کر دینا چاہیے، حکومت پر سنگین الزام عائد کیا گیا ہے کہ شماریاتی ادارے پر دبائو ڈال کر گروتھ ریٹ 4.7فی صد کی گئی۔ اصل اعداد وشمار اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان کو ایل این جی گیس تو نہ مل سکی لندن میں بڑے بڑے فلیٹ ضرور بن گئے۔ انہوں نے کہا 3 سال کے دوران 300 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا۔ اسلام آباد میں شہری پانی کو ترس رہے ہیں صرف دو کروڑ روپے درکار ہیں وہ سرکار کے پاس نہیں کہاں ہے بجٹ ایسے ادارے بڑی تعداد میں ہیں گزشتہ 3 برسوں سے تنخواہیں اور پنشن بند ہیں۔ بجٹ کہانی حقائق کے منافی ہے گروتھ ریٹ کا حکومتی دعویٰ غلط ہے شماریاتی ادارے پر دبائو ڈال کراعداد وشمار کو تبدیل کیا گیا۔ زرداری حکومت میں سرمایہ کاری کی شرح 15.4فی صد تھی لیکن اب سرمایہ کاری کم ہو کر 15.1فی صد ہوگئی ہے معاشی استحکام کا مطلب روزگار کی فراہمی ہے یہاں پلاننگ کمیشن کے مطابق 15لاکھ نوجوان نئے بیروزگار شامل ہوئے ہیں۔ باربار زرداری یا د آتے ہیں۔ حسین نواز کو چیئرمین سٹیل ملز لگا دیں وہ اس کو ٹھیک کر دیں گے موجودہ بورڈ تو اس ملز کو نہیں چلا سکتا۔ وزیراعظم اپنے خاندان کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر قائل نہیں کرسکتے تو کسی اور سرمایہ کار کو کیسے آمادہ کریں گے؟ ایمنسٹی سکیم کا اعلان حکومت کی جانب سے ایف بی آر کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ 10ہزار ٹیکس گزار بھی نہیں آئے 10لاکھ کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ بجٹ سے امیر کو امیر سے امیر تر ہونے کا موقع ملے گا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق آئینی آرٹیکل میں ترمیم اور مقامی حکومتوں کو بھی اس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ قرضے اتارنے کیلئے 1360ارب روپے کا سود ادا کرنا ہے پاکستانی قوم کی قیمت پر یورو بانڈ چھاپے گئے قرضہ لینے کی روش کے قانون کو حکومت نے ہر سال توڑا ہے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قرضہ کی شرح 60فی صد ہونی چاہیے۔ اس بجٹ کو گھر کے بجٹ سے منسلک نہیں کر سکتے تو اسے عوامی بجٹ نہ کہا جائے۔ شیخ رشید احمد نے حکومتی ارکان کو جی ڈی پی گروتھ کے اعداد وشمارپر چیلنج کیا اور کہا جو ڈیٹا جاری کیا گیا وہ غلط ہے ،اسحا ق ڈار نے سٹیٹ بنک اور شماریاتی ادارے میں اپنے بندے لگا رکھے ہیں پاکستان کی منڈی کا بھائو امرتسر سے نکلتا ہے پہلے یہ ریٹ لاہور سے نکلتا تھا ایسے ایسے ٹرائیکون بن گئے ہیں پوری پوری منڈی خرید لیتے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف نے امریکی سفیر کو بلایا جو کہ سول حکومت کا کام ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کے وزیر دفاع سے وہ نہیں ملتے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر شاہی سید نے کہا پانامہ لیکس سے کچھ نہیں نکلے گا‘ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے چھوٹے صوبوں کو گلے لگایا جائے۔ ملک میں دہشتگردی اوربدعنوانی جیسے مسائل موجود ہیں بجٹ خسارے کو کہیں نہ کہیں سے تو پورا کرنا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی دوسرے ملکوں کے مفادات کے تابع ہے اور اس کی بڑی مثال افغان جنگ ہے۔ ٹی او آر میں ایسا طریقہ کار اور حکمت عملی دی جائے پتہ چلے لوگوں نے آف شور اکائونٹس کیوں کھولے اور پیسہ باہر کیوں لے گئے۔ پیسہ باہر جانے کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔

اسلام آباد(خبرنگار) بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان نے بجٹ کو الفاظ کا ہیر پھیر قرار دیتے ہوئے اسے عوام دشمن قراردیا اور کہا کہ بجٹ پاکستان کے نئے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا، لگتا ہے کہ یہ بجٹ 90کی دھائی والا ہی بجٹ ہے ،بجٹ میں چھوٹے صوبوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ، اس سے چھوٹے صوبوں کی محرومیوں میں اضافہ ہوگا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 18ویں ترمیم پر سو فیصد عملدرآمد سے ملک خوشحال ہو سکتا ہے ،اس ملک میں جسے دوزخ میں ہونا چاہے وہ جنت جیسی زندگی گذاررہا ہے اور جسے جنت میں ہونا چاہیے وہ دوزخ میں ہے،یہاں کوئی قانون نہیں ،ہمیں متعصب کہا جاتا ہے‘ دہشتگردی کا بنیادی سبب 38 سال قبل کی افغان پالیسی ہے۔ پاکستان میں قوموں کے درمیان نیا معاہدہ ہونا چاہیے، بنگالیوں کو بھی کمزور سمجھا گیا‘ ہمیں بھی کمزور سمجھا جا رہا ہے‘ پنجاب کے غریب عوام اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں، تمام صوبوں کے عوام کو ایک نظر سے دیکھا جائے۔ خارجہ و داخلہ پالیسی پارلیمنٹ نہیں کوئی اورطے کررہاہے اس ملک میں ملالہ اور اعتزاز کو کوئی خراج تحسین پیش نہیں کرتا۔ ملک کو درست کرنے کے لئے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرنا‘ قوموں کی برابری‘ دولت کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مزید قرضہ لے کر بجٹ بنا رہے ہیں، سی پیک کے مغربی روٹ کے لئے صرف ایک ارب رکھے گئے۔ 14 وزارتوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ بجٹ میں کاشتکاروں کے لئے اس وقت سہولیات دی گئیں جب کاشتکار تباہ ہوگے ،زرعی شعبہ جب تباہ ہوگیا تو مسلم لیگ ن حکومت کو یاد آئی۔ چھوٹے صوبوں سے امتیازی برتائو کیا جارہا ہے سندھ حکومت نے 26 منصوبے بھیجے ایک بھی منظور نہیں کیا گیا‘ 800 ارب روپے کے پی ایس ڈی پی میں سندھ کے لئے صرف 12 ارب روپے رکھے گئے‘ سینیٹ کے مالی اختیارات پر بحث ہونی چاہیے‘ ایوان بالا کو اپنی پی اے سی بنانی چاہیے۔ سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ کے اعداد و شمار میں 200 ارب روپے کا فرق ہے۔ ہم نے اپنے دور میں آٹھ ہزار ارب روپے قرضے لئے تھے تو انہوں نے تین سال میں پانچ ہزار ارب روپے کے قرضے لئے ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ہوگئیں۔ جی ایس پی پلس کی حیثیت ملنے کے باوجود برآمدات کم ہوئیں۔ حکومت نے تسلیم کیا کہ 340 ارب کا کسان پیکج نہ دیتے تو زراعت تباہ ہو جاتی۔ ہم نے اپنے دور میں کوئی کسان پیکج نہیں دیا‘ صرف ان کی کاشت کی اچھی قیمت دی۔ ہم نے سیلابوں اور بارشوں کے باوجود کاشتکاروں کو نقصان نہیں پہنچنے دیا تھا۔ کاشتکاروں کے لئے بجٹ میں سہولتیں دی گئی ہیں مگر باقی طبقات کا کیا بنے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے تو جنریٹرز کی درآمد میں اضافہ کیوں ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر ظفر اللہ ڈھانڈلہ نے کہا کہ حکومت نے بہترین بجٹ پیش کرکے کسانوں کے دل جیت لئے‘ حکومت اور اپوزیشن ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے مل کر لائحہ عمل بنائیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ پانامہ لیکس سے کچھ نہیں نکلے گا‘ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلئے چھوٹے صوبوں کو گلے لگایا جائے ۔ملک میں دہشتگردی اوربدعنوانی جیسے مسائل موجود ہیں بجٹ خسارے کو کہیں نہ کہیں سے تو پورا کرنا ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی دوسرے ملکوں کے مفادات کے تابع ہے اور اس کی بڑی مثال افغان جنگ ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کو چور کہنے کی بجائے ایسی تجاویز دینی چاہئیں جن سے ہم کسی نکتے پر نیشنل ایکشن پلان کی طرح متحد ہو جائیں۔ ایک دوسرے کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے۔ ٹی او آر میں ایسا طریقہ کار اور حکمت عملی دی جائے پتہ چلے لوگوں نے آف شور اکائونٹس کیوں کھولے اور پیسہ باہر کیوں لے گئے۔ پیسہ باہر جانے کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ مہنگائی میں کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری خوش آئند ہے‘ تمام صوبوں کو ترقی کے مواقع ملنے چاہئیں‘ بلوچستان میں آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے فنڈز نہیں رکھے گئے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر سراج الحق نے کہا ایک اچھے بجٹ کی علامت ہوتی ہے وہ ترقیاتی کم اور ویلفیئر زیادہ ہوتا ہے، حکومت نے یہ بجٹ بین الاقومی مالیاتی اداروں کی ہدائت پر بنایا یہی وجہ ہے کہ مزید قرضے لیے جارہے ہیں، موجودہ بجٹ میں 40فیصد قرضے ہیں۔ہم چاہتے ہیں بجٹ میں تعلیم اور صحت کیلئے مزید رقم مختص کی جائے۔ وزیرخزانہ نے گزشتہ بجٹ میں اعلان کیا تھا ملک سے سودی نظام ختم کریں گے مگر وہ ختم نہیں ہو سکا۔ تجویز ہے دیہات کو ترقی دی جائے۔ بجٹ کا حقائق سے تعلق نہیں۔ عوام اور بجٹ میں اتنا فاصلہ ہے جتنا سینٹ کے ایئر کنڈیشن اور ملتان شہر کا گرمی کا ہے۔ بجٹ کو ترقیاتی کہنا خود کو فریب میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ آئی ڈی پیز کیلئے ایک ارب روپے سے زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں۔ شیریں رحمن نے کہا جدید پاکستان کی ترجیحات اور مسئلے اس بجٹ سے حل نہیں ہوسکتے۔ یہ بجٹ گزشتہ صدی کا بجٹ لگتا ہے۔ بجٹ صرف ایک صوبے پنجاب کیلئے بنایا گیا ہے۔ بجٹ میں این ایف سی ایوارڈ کو نظراندا کر دیا گیا۔ فنانس کمیٹی کی بھی نفی کی گئی ہے۔ سندھ 85 فیصد ٹیکس دے رہا ہے۔ اس کے باوجود سندھ کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ بجٹ میں حکومت نے قابل تعریف اقدامات کئے ہیں۔ سینیٹرفرحت اللہ بابر نے کہا پبلک اکائونٹس کمیٹی میں سینٹ کی کوئی نمائندگی نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ سینٹ اپنے رولز میں ترمیم کرکے اپنی پی اے سی بنائے۔ اسلامی نظریہ کونسل کیلئے بجٹ میں سویلین کے فنڈز رکھے گئے ہیں جس نے عجیب و غریب سفارشات کی ہیں۔ کونسل کی مزید کوئی گنجائش نہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا بجٹ میں حکومت کا ویژن نظرنہیں آتا‘ انصاف کی فراہمی کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اسے ختم کرکے بجٹ خواتین کے قومی کمشن کو دیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن