بجٹ کا نقارا
مالی سال 2016-2017 کے لگے وفاقی بجٹ3جون کو پیش کیا گیا ۔ اپنی 90 منٹ سے زیادہ دورانیے کی بجٹ تقریر میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ کے خدوخال اور معیشت کی عمومی صورتحال پر روشنی ڈالی ۔کسی بھی ملک کی معیشت میں بجٹ کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اسی کی روشنی میں سارا معاشی نظام چلتا ہے ۔پاکستا ن کی معیشت ایک عرصہ دراز سے زبوں حالی کا شکار رہی ہے جس کی بہت سی وجوہا ت ہیں ۔انتظامی نظم و نسق کی طرح مالی نظم ونسق میں شفافیت اور مہارت بھی ہمارے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔چونکہ ہمارے ہاں عمومی طور پہ موثر اور دیر پا منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے روزمرہ تقریباً©ہر طبقہ قلیل آمدنی میں اقدامات اور وقت گزارنے کی سوچ کا شکار نظر آتا ہے ۔اگر کہیں پر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ مفاد پرستی پر مبنی سیاست اور مخالفت برائے مخالفت کی سوچ سے پوری ہو جاتی ہے۔ اخراجات اور آمدن کا فرق دن بدن بڑھتا جا رہا ہے جسکے نتیجے میں بیرونی قرضوں پر انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔ ٹیکس کلچر کا بھی سخت فقدان ہے جس کا براہِ راست اثر محاصل پر پڑتا ہے۔ آج کے دور میں معاشی بد حالی یا بحران کسی بھی ملک کی سا لمیت کیلئے سب سے بڑا خطر ہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے خطے کے حالات بھی ہمارے لیے بہت سے خطرات کی غمازی کرتے ہیں اور ایسے میں معاشی کمزوری ایک انتہائی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ موجودہ بجٹ اس حکومت کا چوتھا بجٹ ہے اور اگر کہا جائے کہ مکمل مالی سال کے لحاظ سے یہ حکومت کا آخری بجٹ ہے کیونکہ اگلا بجٹ تو ویسے بھی الیکشن کے سال کا بجٹ ہو گا۔ موجودہ حکومت کو بلا شبہ ایک انتہائی کمزور معیشت ورثے میں ملی تھی جہاں نہ صرف معاشی ابتری عروج پر تھی بلکہ ڈیفالٹ کے خطرات بھی منڈلا رہے تھے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر تقریباً 8ارب تک پہنچ چکے تھے، افراطِ زر اور ترقی کی شرح کے اعداد و شمار بھی خطر ناک حدود کو چُھو رہے تھے۔ حکومت نے نامساعد حالات اور بہت کم Space ہونے کے باوجود پچھلے تین سالوں میں معیشت کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے جسکے کچھ Indicators سب کے سامنے نمایاں ہیں۔ آج زرِ مبادلہ کے ذخائر 22ارب تک پہنچ چکے ہیں، افراطِ زر میں بھی کافی کمی آئی ہے، شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے، مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے اور ڈالر کی خرید و فروخت کی شرح بھی مستحکم ہے۔ گذشتہ مالی سال کے معاشی سروے کے مطابق صنعتی اور سروسز کے شعبوں میں بہتری آئی ہے جبکہ GDP Growth ریٹ ہدف (5.5 Pc) کے مقابلے میں کم (4.71 Pc) آیا ہے جو کہ یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سب سے پریشان کُن بات زرعی شعبے کی زبوں حالی ہے اور یہاں ترقی کی شرح خطرناک حد تک کم (-0.91 Pc) رہی ہے۔ جبکہ ہدف (3.9 Pc) تھا۔ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس شعبے کی بد حالی کا اثر نہ پوری معیشت پر پڑتا ہے بلکہ عوامی بے چینی بھی ایک قدرتی امر ہے جو کوئی بھی جمہوری حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ زرعی شعبے کی خراب صورتحال کا ذمہ دار صرف حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے تقریباً ہر ملک میں زرعی شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ اگر اہم اگلے مالی سال کے بجٹ پر نظر دوڑائیں تو اس میں بہت سے عوام دوست اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔ بجٹ کا کُل حجم 43 کھرب سے زیادہ ہے جس میں 1276 بلین کا خسارہ بھی شامل ہے جو شرح کے لحاظ سے تو پہلے سے کم ہوا ہے مگر اب بھی بہت زیادہ ہے۔ دفاعی شعبے کیلئے 860بلین روپے رکھے گئے ہیں جو مجموعی بجٹ کے لحاظ سے کافی زیادہ لگتا ہے مگر ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر بہت ضروری ہیں۔ یاد رہے کہ دفاعی بجٹ میں صرف 10% کا اضافہ کیا تھا۔ قرضوں کی واپسی کیلئے 360 1بلین روپے رکھے گئے ہیں جو کہ پھر ایک لمحہ فکریہ ہے مگر مجبوری بھی۔ ڈویلپمنٹ بجٹ کا حجم بھی کافی زیادہ 800 بلین ہے جس میں چند انتہائی اہم میگا پراجیکٹ شامل ہیں جن کا تعلق براہِ راست ملکی ترقی سے ہے۔ زرعی شعبے کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے ایک بہت بڑے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد کسان کے اخراجات کو کم کرنا ہے۔ اس میں کھاد کی قیمتوں میں نمایاں کمی، ٹیوب ویل کیلئے بجلی کے نرخوں میں کمی، زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ،زرعی قرضوں کے حجم میں اضافہ،زرعی مشینری پر عائد ٹیکس میں نمایاں کمی اور زرعی قرضوں پر شرح سود میں نمایاں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو باوجود مشکل اقتصادی حالات کے یہ ایک متوازن بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کیا ہے کہ اس سال کے آخر میں ہم IMF کے پروگرام کو بھی خیرباد کہہ دیںگے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں نہ صرف 10% اضافہ کیا ہے بلکہ پہلے سے موجودہ دو ایڈہاک اضافوں کو بھی بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا ہے جس ے یہ 10% کا اضافہ تقریباً 15% ہو اجاتا ہے۔ کلرکس اور کچھ دوسرے شعبوں کے ملازمین کے بے سکیل میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جو کہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے بھی منصوبوں پر جاری کام کو تیز کرنے کیلئے فنڈز الاٹ کیے گئے ہیں جن میں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور تربیلا ڈیم کی ریزنگ کے اہم منصوبے شامل ہیں۔ ذرائع آمد رفت کی بہتری کیلئے بھی بہت سے بڑے منصوبوں کیلئے رقم مختص کی گئی ہے جس سے یقیناً انقلاب برپا ہو گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کیلئے رقم اسکے علاوہ ہے۔ ہر بجٹ میں کچھ مثبت اقدامات ہوتے ہیں اور کچھ مشکل فیصلے کیونکہ اسی طرح نظام چلتا ہے۔ مجموعی طور پر اس بجٹ کو متوازن اور Progressive بجٹ قرار دیا جا سکتا ہے وہ دوسری بات ہے کہ اگر صرف مخالفت برائے مخالفت اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی مطمع نظر ہو تو پھر اُس کی کوئی حد نہیں۔ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال میں یقیناً بہتری آئی ہے اور اس کیلئے ایک میثاقِ معیشت لانے کی اشد ضرورت ہے لہٰذا حزبِ مخالف کو بھی چاہئے کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر معیشت کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات تجویز کرے۔ بجٹ پر بحث کے دوران بھی مثبت اور قابلِ عمل تجویزات دینی چاہئیں تاکہ مطلوبہ اقدامات کئے جا سکیں۔ اگر بجٹ تقاریر بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر مشتمل ہوئیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے تو پھر بہتری کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔