گوادر، کراچی بمقابلہ دبئی شارجہ
امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کے دور میں ہمارے امریکی امداد یافتہ اور حمایت یافتہ حکمران اور مذہبی جماعتیں امریکہ کو درمیان سے نکال کر صرف ایشیا سبز ہے کہ نعروں کی گونج میں اشیاءسرخ ہے کا نعرے لگانے والے چین اور روس کے حمایت یافتہ سرخوں کا مقابلہ پوری طاقت سے کرتے تھے۔ مذہبی جماعتیں سرخ ریچھ کے خطرے سے سوشلزم اور کمیونزم کے خوف سے عوام کو یوں ڈراتے جس طرح بندگان خدا کو دوزخ کے خوف سے خدا سے ڈراتے ہیں۔ اسی دور میں گرم پانیوں کا شوشہ چھوڑا گیا کہ روس اور چین کے ملحد نظام والے لوگ پاکستان کے راستے گرم پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ عوام الناس ٹھہرے بے وقوف وہ بے چارے گرم پانی کا مطلب سمجھنے یا نہ سمجھے مگر کراچی بندرگاہ پر روس اور چین کے قبضے کے خوف میں ضرور مبتلا رہے فوجی آمر بھی مذہبی جماعتوں کی مدد سے امریکہ کی طرف سے آنکھیں بند کئے رہے۔ انہیں اہل کتاب اور اپنا مربی و دوست قرار دیا جاتا رہا۔ یوں امریکی ڈالر پاکستان کی معیشت اور مذہبی جماعتوں کے اکاﺅنٹ کو مستحکم کرنے میں خاصہ مددگار ثابت ہوا بھٹو کا دور آیا تو کفر و اسلام کی جنگ کے نعروں کے باوجود یکدم ملحد چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی قرار پائی۔ مگر کفر اور اسلام کے نعرے لگانے والے امریکی ڈالر حلال کرتے رہے۔ کمیونزم سوشلزم مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ ضیاءکے دور میں آمریت اور مذہبی جماعتوں کی روایتی دوستی ہم آہنگی جاری رہی۔ افغان وار میں آمر اور یہ جماعتیں نہال ہو گئیں۔ جہاد افغانستان کے بعد سرخ ریچھ زخمی حالت میں واپس چلا گیا۔ تو اچانک اہل کتاب جو اہل ڈالر بھی ہیں نے اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا اور مذہبی جماعتوں کو سیاسی اور عسکری حکومتوںکیخلاف مقابل کر دیا۔ افغانستان میں بھی اپنے پیارے مجاہدین کو لاوارث چھوڑ دیا۔ مشرف آمر کو اپنا زعم تھا اور مذہبی جماعتوں کو جو اب وار لار ڈربن چکی ہیں اپنے زعم میں تھیں مال پیسہ بہت ہے انکے پاس انہوں نے براہ راست حکومتوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ یہ علیحدہ قصہ ہے علیحدہ موضوع ہے۔ گوادر (ہوا کا دروازہ) میں چین نے ضیاءدور سے ہی دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ کیونکہ یہ اس کےلئے تیل کے ذخائر سے مالا مال عرب ریاستوں اور انکی مارکیٹوں تک رسائی کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ اور یہ ہی چین کی گرم پانی تک رسائی ممکن بنا سکتا ہے۔ چین کے اخبارات اور عسکری میگزین ضیا دور سے ہی چین گوادر آرمی پورٹ کے نام سے پکارتے تھے اب حکومت پاکستان کو مشرف دور کے بعد امریکی یاری ٹوٹنے کے بعد جس مضبوط مددگار کی ضرورت تھی وہ چین کی شکل میں سامنے تھا۔ چنانچہ یوں ایک ملحد سرخ سوشلسٹ چین کے ساتھ بھٹو کے بعد روابط عروج کو پہنچنے اور یہی ملحد چین کھلے دل سے پاکستان میں سی پیک منصوبے کے نام پر پاک چین کاریڈور بنانے کے ساتھ ساتھ گوادر کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہے تاکہ اسکے راستے وہ گرم پانی تک پہنچ سکے۔ اسی لئے وہ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں تین کاریڈور تیار کر رہا ہے جہاں نت نئے صنعتی زون بنیں گے۔ تجارت و صنعتی ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ خیبر پی کے‘ سندھ اور پنجاب کیساتھ یہ بلوچستان کےلئے نہایت اہم منصوبہ ہے جو یہاں ترقی کے نئے راستے کھول کر اسے عالمی منڈی بنا دیگا۔
یہ بات امریکہ اور اسکے نئے دوستوں بھارت اور ایران کو قبول نہیں چنانچہ انہوں نے گوادر سے سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر و ترقی کا اعلان کر دیا تاکہ گوادر کے مقابلے میں اسے کھڑا کیا جا سکے اور چین کے اقتصادی منصوبے ناکام بنا سکیں۔ مگر یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ گوادر محل وقوع کے اعتبار سے بحیرہ عرب سے خلیج عمان اور خلیج فارس میں داخلے کا سب سے اہم اور پہلا پوائنٹ ہے۔ یہ ہوا کا دروازہ خلیجی ریاستوں میں داخلے کا دروازہ ہے۔ اب اس وقت مذہبی جماعتیں بھی سرخ سے سبز ہے کے نعرے بھول چکی ہیں انکے پیٹ اور بنکوں میں اکاﺅنٹ بھرے ہیں یہ وارڈ لارڈز کے ساتھ ساتھ لینڈ لارڈ بھی بن چکی ہیں اس لئے اب وہ سبز اور سرخ کے چکروں میں نہیں پڑتیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکہ، بھارت، ایران اور افغانستان کی سازشوں کے مقابلے کیلئے گوادر کو واقعی ہوا کا دروازہ بنائے تاکہ وہاں سے معاشی اور مالی لحاظ سے ٹھنڈی ہوائیں پورے پاکستان میں محسوس ہوں۔
اب وقت آگیا ہے کہ کراچی اور گوادر کو ہانگ کانگ اور دبئی کی طرح جدید ماڈرن شہر اور کاروباری و تجارتی مراکز بنا کر وہاں ان دونوں شہروں کو ہر طرح کی جدید سہولیات اور کاروباری و تجارتی سہولتیں فراہم کی جائیں اور ان دونوں شہروں کو دبئی شارجہ بنکاک اور ہانگ کانگ کی طرح عظیم تجارتی و کاروباری زون بنایا جائے چاہے اس سے دبئی والے ناراض ہوں یا شارجہ والے یا ایران والے اس وقت ہمیں اپنے ملکی مفادات کو اولیت دینا ہو گی۔ صرف یہی نہیں اگر ہمت و حوصلہ ہے تو پسنی‘ جیونی اور اماڑہ کو بھی ماڈل جدید بندرگاہیں بنا کر ہم عالمی تجارتی منڈی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس وقت سرخ ریچھ بھی صحت مند ہو چکا ہے۔ ہم سابقہ رنجشوں کو بھول کر اسکے ساتھ بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا کر امریکہ بھارت اور ایران کے مقابلے میں روس چین اور پاکستان پر مشتمل ایک طاقتور بلاک قائم کر سکتے ہیں۔ اگر امریکہ بھارت اور ایران میں دوستی ہو سکتی ہے تو ہمیں روس کیساتھ دوستی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اس طرح ہم گوادر کا بھی تحفظ بھی یقینی بنا لیں گے اور روس و چین دونوں اپنے اس قریبی گرم پانی کے راستے سے فائدہ اٹھا سکیں گے جس میں فائدہ پاکستانی معیشت تجارت اور کاروبار کو ہو گا۔بس ذرا بھارت کے وظیفہ خوار دینی و سیاسی جماعتوں کو جن سے ہر پاکستانی واقف ہے لگام ڈالنا ہو گی۔ پوری طاقت سے ان سانپوں کے پھن کچلنا ہونگے جو پاک چین کاریڈور کی مخالفت صرف اور صرف بھارت کا مال حلال کرنے کیلئے کر رہے ہیں۔