امیری کی لکیر سے اوپر لوگوں کو کتنا پیسہ چاہئے
زکوٰۃ کیلئے میرے کالم کی بہت پذیرائی ہوئی لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ ان کو معلوم ہی نہیں وہ گِن بھی نہیں سکتے۔ بہت لوگوں کے پاس گننے کو چند پیسے بھی نہیں۔ اگر لوگ دل و جان سے زکوٰۃ ہی دیں تو لوگ خوشحال ہو جائیں گے۔ اس کے باوجود کہ یکم رمضان سے پہلے لوگ بنکوں سے اپنا پیسہ نکلوا لیتے ہیں کہ ’’سرکاری زکوٰۃ‘‘ سے بچ جائیں کہ یہ صرف امیروں کے کام آتا ہے۔ اربوں روپے لوگوں کی بے توجہی کے باوجود زکوٰۃ کے ضمن میں جمع ہو چکے ہیں۔ وہ ذاتی طور پر مستحق لوگوں کو بہت دیتے ہیں۔ پاکستان میں مخیر حضرات سب سے زیادہ ہیں اور یہ دنیا والے تسلیم کرتے ہیں۔
بہت ممتاز اور محترم خاتون کے ایچ خورشید کے ساتھ فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کتنا پیسہ چاہئے؟ اگر انسانیت کی امنگ زندہ ہے تو آدمی بہت کم پیسوں سے انجوائے کر سکتا ہے۔ آخر ایک آدمی کو بہت اچھی طرح زندہ رہنے کے لئے کتنا پیسہ چاہئے۔ سنا ہے ایک امیر آدمی کے پانچ بیڈ روم تھے۔ وہ ان سب کمروں میں کس طرح سوتا ہو گا۔ سکیورٹی کا معاملہ ہے تو جو لوگ گھروں کے باہر گلیوں سڑکوں پر بے خبر بے نیاز سوتے ہیں ان کی سکیورٹی کون کرتا ہے۔ خطرہ آخر امیر کبیر لوگوں کو کیوں ہوتا ہے۔ غریب آدمی کو کیوں نہیں ہوتا۔
ثریا بی بی نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی نظریاتی تقریبات میں باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں۔ ان کے مرحوم شوہر کے ایچ خورشید قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ وہ دو دفعہ آزاد کشمیر کے صدر رہے اور آزاد کشمیر اسمبلی میں بہت عرصہ اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی بھی ان کی کوششوں سے بنائی گئی تھی۔
مجھے محترمہ ثریا خورشید کا یہ جملہ بہت پسند آیا کہ آخر ایک اچھی بھلی زندگی گزارنے کیلئے کتنا پیسہ چاہئے؟ یہ ہو تو ایسا ہی ماحول ہمارے معاشرے میں ہو کہ عہد نبویؐ میں لوگ زکوٰۃ کیلئے پھرتے تھے اور کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ تھا۔
میں نے کل کچھ لوگوں کا ذکر کیا کہ آپ چاہیں تو زکوٰۃ دیتے ہوئے انہیں یاد رکھیں۔ شیخوپورہ روڈ پر اڈہ ستار شاہ میں ایک مکمل دیہاتی سکول کیلئے عرض کیا تھا۔ ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک اعلیٰ پرائیویٹ سکول کا ہونا ایک حیران کر دینے والا واقعہ ہے۔ اس سکول کی پرنسپل محترمہ راحیلہ رباب نے اپنا سکول اکائونٹ نمبر لکھا ہے جو کسی غلط فہمی سے کچھ اور شائع ہو گیا تھا۔ 015500115969305پنجاب بنک بیگم کوٹ ہے۔ محترمہ طیبہ وحید کاردار نے بتایا کہ اکائونٹ نمبر کے ساتھ بنک کا نام نہیں ہے۔ وہ سپیشل معذور بچوں کو چلنا پھرنا بولنا سکھاتی ہیں جو ایک محنت طلب کام ہے اور بہت بڑی نیکی ہے۔ نیشنل بنک چوبرجی برانچ لاہور کوڈ نمبر 0493کے ساتھ اکائونٹ نمبر 2336-9 ہے۔
اس کے ساتھ بجٹ میں پنشن کیلئے خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کی شکایت کی گئی ہے۔ سابق ٹی وی پروڈیوسر ریاض مسعود نے اسے بزرگ دشمن بجٹ کہا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں 5200/- روپے میں کس طرح گزارا ہو سکتا ہے۔ یہ بوڑھے تو زکوٰۃ کے بھی مستحق ہیں۔
اسحاق ڈار اس طرف بھی توجہ دیں کہ غریبی کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ ہیں تو امیری کی لکیر سے اوپر زندگی ٹھاٹھ باٹھ سے بسر کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ڈار صاحب کی نظر غریبی کی لکیر کے نیچے تو نہیں جائے گی۔ وہ امیری کی لکیر کے اوپر زندگی بسر کرنے والوں کو ہی گھور کے دیکھنے کی جرآت کریں اور ان سے لوٹ مار کے ذریعے کمایا گیا پیسہ چھین لیں۔ ایک بوڑھا بہت سنجیدگی سے کہہ رہا تھا کہ ہمیں کچھ نہ دو مگر ان امیروں لٹیروں کرپٹ لوگوں سے تو کچھ چھین لو۔ مگر اتنی ہمت امیر آدمی اسحاق ڈار کیسے کرے گا۔ تعلیم اور صحت کیلئے فنڈز کم ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے زیادہ فنڈز ہیں۔ کیا تعلیم اور صحت ترقیاتی نہیں ہیں تو ترقیاتی منصوبے کیا ہیں۔ غریب لوگوں کو پچھلے پچاس ساٹھ سال میں کیا ملا ہے۔ حکمران اور افسران تو زکوٰۃ کے پیسے بھی کھا پی جاتے ہیں۔
یہاں بلاول کی بات سنیں وہ حیران ہیں کہ نواز شریف کے دل کا آپریشن ہوا ہے یا دماغ کا کہ وہ بجٹ کو ترقیاتی کہہ رہے ہیں۔ ٹیکسلا کے برادرم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ 65ء برس کے پنشنر کے لئے اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر یہ کیا مذاق ہے کہ 85 برس والوں کیلئے کم اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
زکوٰۃ اور خیرات کی ضرورت تو برادرم ضیاء الحق نقشبندی کو بھی ہو گی کہ اس نے ارشد گارڈن جلو موڑ سے پہلے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھوایا ساتھ ہی ایک جدید دینی مدرسہ ہو گا۔ شہر سے اتنی دور اس نے بڑے اہم آدمی اکٹھے کر لئے۔ ڈائریکٹر اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، خواجہ غلام قطب الدین فریدی، علامہ احمد علی قصوری، مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، یاسر پیرزادہ، ڈاکٹر راغب نعیمی اور راقم الحروف کے علاوہ بھی بہت احباب نے شرکت کی۔ ایک بہت ولولہ انگیز صورتحال برادرم نواز کھرل کی کمپیرئنگ سے بن گئی۔ وہ بہت جذبے والے اہل آدمی ہیں۔ بہت خوبصورت جملے بولتے ہیں۔
ضیاء الحق نقشبندی جامعہ نعیمیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ مسجد الحق اور دینی مدرسے کیلئے احباب کی مالی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ یاسر پیرزادہ نے کہا کہ یہ مسجد ایک کمیونٹی سنٹر کی طرح ہونا چاہیے۔ جدید و قدیم روایات کے مطابق علم و ہنر کی ترسیل کا یہ سلسلہ نمایاں طور پر آگے بڑھنا چاہیے مسجد نماز پڑھنے کی جگہ ہے اسے ایک فلاحی اور سماجی مرکز بھی ہونا چاہیے۔
ماہ رمضان سے پہلے پہلے روٹڑی کلب والوں نے ایک صبح ناشتے کا اہتمام کیا۔ جو لنچ سے تھوڑا سا پہلے میسر آیا اسے اب برنچ کہا جانے لگا ہے۔ عرفان چودھری نے سٹیج سنبھالا۔ وہ شالیمار روٹری کلب کے صدر ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ڈاکٹر آغا یعقوب ضیا نمایاں تھے۔ سبکدوش ہونے والے گورنر روٹری کلب ساجد پرویز بھٹی تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ نئے گورنر میر عارف علی بیٹھے ہوئے تھے۔ روٹری کلب سے انٹرنیشنل کی طرف سے شاہد رشید کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ یہاں فوزیہ چغتائی اور عشرت صاحبہ نمائندہ خواتین کے طور پر موجود تھیں۔ روٹری کلب انٹرنیشنل کی 120 شاخیں ہیں۔ افطاریوں کا موسم آنے والا ہے۔ پوچھا گیا کہ ماہ رمضان میں سچ سچ بتائو تم آجکل کس پارٹی میں ہو اس نے کہا کہ آجکل افطار پارٹی میں ہوں؟