قومی اسمبلی : خواجہ آصف کی شیریں مزاری کا نام لیے بغیر ’’غیر مشروط معافی‘‘ اپوزیشن نے مسترد کر دی ‘ واک آئوٹ
اسلام آباد (نیٹ نیوز + ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے نازیبا الفاظ پر تحریکِ انصاف کی رکن شیریں مزاری کا نام لے کر معافی نہ مانگے جانے پر اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا ہے۔ بجٹ پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سپیکر قومی اسمبلی نے خواجہ آصف کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریری معافی پڑھ کر سنائی جسے حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے مسترد کر دیا۔ اس موقع پر شیریں مزاری نے کہا کہ خواجہ آصف کو ایوان میں آ کر معافی مانگنی چاہیے، محض تحریری معافی سے کام نہیں چلے گا۔ کچھ دیر بعد خواجہ آصف اسمبلی میں آئے اور پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرتے ہوئے اس واقعہ پر غیر مشروط معافی مانگی۔ اْنہوں نے کہا کہ اْنہوں نے جو ریمارکس دیئے تھے وہ نہیں دینے چاہیئں تھے اگر ان کی باتوں سے کسی رکن کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ اس پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔ تاہم شیریں مزاری اس معافی پر بھی مطمئن نہیں ہوئیں اور کہا کہ چونکہ خواجہ آصف نے اْن کا نام لے کر نامناسب الفاظ کہے تھے اس لیے اْنہیں (شیریں مزاری کا) نام لے کر معافی مانگنی چاہیے۔ اس پر خواجہ آصف نے کہا کہ اْنہوں نے کسی کا نام لے کر وہ الفاظ نہیں کہے تھے اور اگر ایوان چاہے تو ایوان کی کارروائی نکال کر سن لے۔ ان کے اس بیان پر حزب مِخالف کی جماعتیں ایوان سے واک آؤٹ کرگئیں۔ حزب مخالف کی جماعتوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ اْنہیں نے ایوان کے ماحول کو ٹھیک رکھنے کے لئے آئینی کردار ادا نہیں کیا۔ حزب مخالف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے سپیکر ایاز صادق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اْنہوں نے خواجہ آصف کی تحریری معافی نامہ تو پڑھ لیا ہے لیکن وہ تحریک استحقاق نہیں پڑھی جو شیریں مزاری نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی ہے۔ خواجہ آصف کے ریمارکس پر پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پارلیمنٹ میں سنجیدگی سے کام نہیں ہو رہا۔ خواجہ آصف کی تحریری معافی کے معاملے پر اب ایوان کو فیصلہ کرنا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں اس معاملے پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اگر شیریں مزاری اْن کے کہنے پر بیٹھ جاتیں تو معاملہ اس قدر آگے نہ بڑھتا، تاہم اس کے باوجود اْنھوں نے خواجہ آصف کے ریمارکس کارروائی سے حذف کرا دیئے تھے۔ دوسری جانب حکمراں جماعت کی رکن شائشہ پرویز ملک نے قومی اسمبلی کی خواتین ارکان کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں خواجہ آصف کے ریمارکس کے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا جائے گا۔ خواجہ آصف نے فلور پر کھڑے ہو کر معافی مانگی اور کہا اس پر افسوس ہے، میری جانب سے ردعمل فطری تھا، مجھے ایوان میں ایسا رویہ نہیں اپنانا چاہیئے تھا میرا مقصد ایوان کا ماحول خراب کرنا نہیں تھا تاہم کل جو بھی ہوا اس پر معافی کا طلب گار ہوں۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ معافی میں نے خود مانگی ہے میری پارٹی نے نہیں کہا، اگر میں نے کسی کا نام لیا تو ایک بار نہیں سو بار معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں، میری تقریر نکال کر دیکھ لیں میں نے کسی کا نام نہیں لیا سپیکر کو لکھے گئے خط میں غیر مشروط معافی مانگی۔ اس موقع پر اسحاق ڈار نے خاموشی سے خواجہ آصف سے کہا کہ شیریں مزاری کا نام لے کر معافی مانگیں لیکن انہوں نے اسحاق ڈار کی بات سنی ان سنی کردی۔ سپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہئے، معاملہ یہیں ختم کریں ہمیں دل بڑا کر کے معذرت قبول کرلینی چاہیئے خواجہ آصف کی جانب سے غیر مشروط معافی قابل ستائش ہے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے معافی کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، خواجہ آصف دودھ میں مینگنیاں ڈال کر دے رہے ہیں نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ کسی کی ذات کو نشانہ بنایا جائیگا تو وہ ایوان کی بھی تذلیل ہے۔