نیو کلیئر سپلائرز گروپ جوہری مواد کی پرامن مقاصد کیلئے تجارت کا نگران ادارہ، 1974ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد قائم ہوا
لندن (نیٹ نیوز/ بی بی سی )پاکستان نے گذشتہ دنوں نیوکلیئر سپلائرز گروپ کو متنبہ کیا ہے کہ کسی خاص ملک کو اس کی رکنیت سے دور رکھنے کی مخصوص شرائط جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 21 مئی 2016 کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست جمع کرائی تھی۔ بھارت بھی اس گروپ میں شمولیت کا خواہشمند ہے۔ یہ گروپ ایسے ممالک کا گروپ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے قوانین کے تحت جوہری مواد سپلائی کرنے کے لیے قوانین پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ ایک طرح سے یہ جوہری مواد کی پرامن مقاصد کے لیے تجارت کا نگران ادارہ ہے۔ این ایس جی کا قیام 1974 میں بھارت کے جوہری دھماکے کرنے کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ این ایس جی کے رہنما قوانین میں ’جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ‘ کا اصول 1994 میں شامل کیا گیا تھا۔ اس گروپ کے کوئی رکن ملک جوہری مواد کی سپلائی صرف اسی صورت میں کرے گا جب وہ اس بات کا اطمینان کر لے کہ اس سپلائی کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ نہیں ہو گا۔ این ایس جی کے رہنما اصول مختلف عالمی قوانین سے وابستہ ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے لاگو ہوتے ہیں۔ ان میں این پی ٹی یعنی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ اور ایسے مختلف علاقائی معاہدے شامل ہیں جن پر مختلف ممالک نے دستحظ کر رکھے ہیں۔ رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے پر دستخط کر چکے ہوں۔ این ایس جی کے تمام فیصلے مکمل اتفاقِ رائے کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور انکی مکمل ذمہ داری این ایس جی کی پلینری اجلاس میں ہوتے ہیں جو سال میں ایک بار ہوتا ہے جس کی صدارت مختلف ممالک باری باری کرتے ہیں۔ این ایس جی کے مرکزی معاملات ایک تکون چلاتی ہے جس میں اس کی سابقہ، موجودہ اور مستقبل کی چیئر شامل ہیں جو اس وقت ارجنٹائن اور کوریا پر مشتمل ہے کیونکہ اس وقت اس کے چیئر ارجنٹائن کے رفائل ماریانو گراسی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں توانائی کی بڑھتی ضروریات میں جوہری ری ایکٹروں سے توانائی کا حصول بڑھے گا جو کہ ایک بہت بڑی ابھرتی ہوئی منڈی ہے اور اسی لیے پاکستان اور بھارت اس گروپ کا حصہ بن کر اس تجارت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
این ایس جی