خواجہ آصف کی اسمبلی میں معذرت بھی غیر پارلیمانی ہے
کہتے ہیں جی ایچ کیو میں بڑی اہم میٹنگ ہوئی ہے۔ اہم میٹنگ تھی تو چودھری نثار کیوں نہ تھے۔ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف ہی کیوں؟ خواجہ آصف جگت بازی کے عادی پارلیمنٹیرین ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کے خلاف زبان درازی کی۔ اس کے صلے میں نواز شریف نے انہیں دفاع کی وزارت کا اضافی چارج دے دیا ہے۔ وہ جی ایچ کیو کی اہم میٹنگ میں تھے مگر انہیں اعتراض ہوتا ہے کہ چودھری نثار کی آرمی چیف کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات کیوں ہوتی ہے اور جنرل راحیل شریف کے گھر پر کیوں ہوتی ہے۔ کبھی چودھری نثار نے اعتراض کیا کہ جی ایچ کیو کی اہم میٹنگ میں غیر اہم آدمی کیوں ہوتے ہیں۔
خواجہ صاحب پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کے ایسی بات کرتے ہیں جو ٹی وی چینل پر تھیٹر نما پروگراموں میں بھی نہیں ہوتی۔ ان کی گفتگو میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے پارلیمانی انداز میں مداخلت کی تو خواجہ صاحب بھڑک اٹھے اور سپیکر سے التجا کی کہ اس ٹریکٹر ٹرالی کو خاموش کرائیں۔ مگر ن لیگ کے سپیکر ایاز صادق تو تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔
شیریں مزاری کی آواز پر بھی طنز کی گئی۔ انہیں اپنی مردانہ آواز ٹھیک کرانے کیلئے کہا گیا۔ مرد مذکر ہے مگر مردانگی تو مونث ہے۔ عورت دشمن شخص اپنی ماں بہن کا بھی خیال نہیں کرتا۔ خواجہ صاحب کو مردانگی جہاں ہو اس سے ڈر لگتا ہے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ شکر ہے میری آواز خواجہ آصف سے طاقتور ہے۔
اس دوران عابد شیر علی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو آنٹی کہہ دیا۔ بھتیجے صاحب کو اپنی ادائوں پر بھی غور کرنا چاہئے۔ خواجے دا گواہ ڈڈو؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے پچھلے کسی عہد میں انٹی کرپشن کو آنٹی کرپشن کہا جانے لگا تھا۔ عابد شیر علی نے سیاست سے وزارت تک سفر اپنی ایک آنٹی کے کاندھے پر سر رکھ کر طے کیا ہے۔
تحریک انصاف والوں نے اسمبلی کے اندر اور باہر سخت احتجاج کیا۔ سپیکر ایاز صادق کا رویہ ایسا تھا کہ ن لیگ کے سپیکر ہیں۔ نعیم الحق نے کہا کہ اس بدتمیزی پر خواجہ آصف کو اسمبلی کے اندر الٹا لٹکا دینا چاہئے۔ اور اسے 25 جوتے لگنا چاہئے اس پر اسد عمر نے نعیم الحق کو خبردار کیا کہ سو جوتے مارنا چاہئیں۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کا طرز کلام ہے۔ یہ ہمارے نمائندے ہیں۔ خواجہ آصف اسد عمر عابد شیر علی اور ایاز صادق؟
ڈاکٹر شیریں مزاری نے خواجہ صاحب کو بدتمیز کہا اور اس بے ہودگی کیلئے سپیکر کو کوئی کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔ یہ سب ماحول خواجہ آصف کی جگت بازی اور جملے بازی نے خراب کیا ہے۔ ان کیلئے لابی میں بھی باتیں ہوتی ہیں۔
کسی نے کہا کہ خواجہ آصف ڈاکٹر شیریں مزاری سے گڑگڑا کر معافی مانگیں۔ سپیکر ایاز صادق کا فرض تھا کہ وہ خواجہ آصف کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور گفتگو کا سلیقہ اختیار کرنے کی ہدایت کرتے۔ خواجہ صاحب کو چند منٹوں کیلئے باہر نکال دیتے مگر اس کے بعد وہ لوگ کس طرح ایوان میں صحیح سلامت بیٹھے ہوتے۔ انہوں نے یہ الفاظ کارروائی کے فوری طور پر حذف کرنے سے بھی انکار کر دیا اور کہا یہ غیر پارلیمانی الفاظ نہیں ہیں؟
میرے خیال میں اسمبلی کی ساری خواتین اس کے خلاف احتجاج کریں۔ ن لیگ کی ممبران خواتین آخر خواتین تو ہیں؟ مگر وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں اللہ نے عورت پیدا کیا ہے۔ مگر ممبر اسمبلی تو نواز شریف نے بنایا ہے ممبر سازی کی اس کمیٹی میں خواجہ آصف بھی تھے۔
مریم نواز بہت شائستہ اور پڑھی لکھی اور سرگرم خاتون ہیں تو وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔ آجکل وزیراعظم نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کا حکم ن لیگ کے سیاستدانوں پر چلتا ہے۔ وہ خواجہ آصف کو تنبیہ کریں۔ محترمہ سمعیہ راحیل قاضی نے خواجہ آصف کی مذمت کی ہے۔ وہ ایک عورت کی وجہ سے اس جہان میں ہیں۔ عورت کی عزت کرنا سیکھیں۔ سمعیہ بہت زبردست پارلیمنٹرین ایک زمانے میں اسمبلی کے اندر تھیں شہلا رضا نے بھی اس صورتحال کو بری طرح محسوس کیا ہے فرزانہ باری نے بھی احتجاج کیا ہے کہا گیا کہ خواجہ صاحب اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ بھی اسی زبان میں سلوک کرتے ہوں گے۔ لگتا ہے کہ عورتیں خواجہ آصف کے خلاف تحریک چلائیں گی ن لیگ کی عورتیں بھی حوصلہ کریں۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن نکمی ہے تو حکومت کس کام کی ہے؟ حکومت کیلئے نالائق کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔ نالائق اپنے کام کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔ اس کے سرکاری جماعت ن لیگ کی کارکردگی دیکھ لیں؟
مریم نواز کی میڈیا ٹیم کے کھڑپینچ طلال چودھری نے محتاط انداز میں خواجہ آصف کی حمایت کی ہے۔ ابھی مریم نواز نے اس کی بہت سیاسی تربیت کی ہے اس نے کہا کہ حکومت نے کسانوں کو بہت مراعات دی ہیں۔ اس لحاظ سے ایک فضاء خواجہ صاحب کے ذہن و دل پر طاری تھی۔ زرعی اصلاحات کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ٹریکٹر ٹرالی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ طلال چودھری جب چودھری پرویز الٰہی کی گاڑی کے آگے بھنگڑا ڈالتے تھے تو ٹریکٹر ٹرالی کا گمان گزرتا تھا۔ وہ اس طرح کا مظاہرہ کرتے جیسے وہ چودھری صاحب کی گاڑی کو کھینچ رہے ہیں۔
بہرحال نمائندہ لوگوں کی طرف سے جو مظاہرہ اسمبلی میں کیا جاتا ہے وہ جلسہ عام میں بھی نہیں ہوتا۔ عمران خان کے جلوسوں میں عورتوں کے ساتھ بدتمیزی کا الزام نعیم الحق نے ن لیگ کے غنڈوں پر لگایا۔ خواجہ صاحب نے اسمبلی کے اندر تحریک انصاف کی ممتاز اور محترم خاتون کے ساتھ جو پارلیمانی زیادتی کی ہے اب تو ثابت ہو گیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ بدتمیزی ن لیگ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ خواجہ آصف نے ایوان کے اندر معافی مانگ لی ہے۔ ڈاکٹر شیری مزاری نے یہ معافی مسترد کر دی ہے۔ کئی ارکان اسمبلی نے کہا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کا نام نہ لے کر معافی مانگنے کی کیا حیثیت ہے؟ انہوں نے واک آئوٹ کیا شیریں مزاری ایک محترم سیاسی لیڈر ہیں۔ رکن اسمبلی ہیں اور ایک عورت بھی ہیں۔ خواجہ صاحب ان کا نام لے کے معافی کیوں نہیں مانگتے۔ وہ ارکان اسمبلی سے معافی مانگ سکتے ہیں تو ایک خاتون رکن اسمبلی سے معافی کیوں نہیں مانگ سکتے۔ خواجہ صاحب وہ بات ہی کیوں کرتے ہیں جس پر انہیں معافی مانگنا پڑے۔ اس طرح تو ایوان میں ہر طرف معافیاں اڑتی نظر آئیں گی۔ خواجہ صاحب کو ہر روز کم از کم ایک بار تو معافی مانگنی پڑے گی۔
بہت معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ خواجہ آصف کو معافی مانگنے کی ہدایت لندن سے کی گئی ہے جو مریم نواز نے خواجہ صاحب تک پہنچائی ہے؟ کیونکہ کمزور حکومت کوئی دبائو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔ خواجہ صاحب کی ایوان میں معذرت خواہانہ حالت دیکھ کر ترس آیا ہے۔