• news
  • image

خواجہ آصف اور شیریں مزاری کے درمیان صورتحال معمول پر نہ آ سکی

قومی اسمبلی کے 33ویں سیشن کی ساتویں نشست بھی تحریک انصاف کی شیریں مزاری اور وفاقی وزیر پانی وبجلی خوجہ آصف کے درمیان تلخ نوائی خواجہ آصف کے معافی نامہ کے باوجود ختم نہیں ہوئی شیریں مزاری خواجہ آصف سے ذاتی طور پر معذرت کا تقاضا کر رہی ہیں لیکن خواجہ آصف ان سے معذرت کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے دو روز قبل خواجہ آصف کی جانب سے شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کہنے سے جو آگ لگی تھی وہ خواجہ آصف کے معافی مانگنے سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ جمعہ کو شیریں مزاری نے سپیکر کے سامنے معاملہ اٹھایا ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت کو بھی شیریں مزاری کی اشک شوئی سے کوئی دلچسپی نہیں پاکستان تحریک انصاف نے وزیر پانی وبجلی خواجہ محمد آصف کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی ہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی سے خاتون رکن ڈاکٹر شیریں مزاری کے خلاف خواجہ آصف کے غیر شائستہ الفاظ کی ادائیگی کے معاملے کی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے اپوزیشن جماعتوں نے وویمن کاکس کا بھی بائیکاٹ کر دیا ہے اور کاکس سے متعلق دیگر متعلقہ ممالک کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو شیریں مزاری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ خواجہ محمد آصف نے ذاتی طورپر مجھ پر اٹیک کیا تھا ابھی تک مجھ سے براہ راست معافی نہیں مانگی۔ مسلم لیگ (ن) کی ایک خاتون نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بھی اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے یہ کس طرح کی سوچ ہے؟ اس دوران بعض حکومتی ارکان نے تحریک انصاف کی فاضل خاتون رکن کے نکتہ اعتراض میں مداخلت کی تو شیریں مزاری نے کہا کہ’’ اگر یہ نعرے لگائیں گے تو جواب بھی آئے گا۔ قومی بجٹ 2016-17 پر بحث جاری رہی حکومت اور اپوزیشن کے’’ تعلقات کار‘‘ میں کشیدگی کے باعث کورم ٹوٹنا معمول بن گیا ہے؟ حکومتی ارکان کی ’’غیر سنجیدگی‘‘ ہی کورم کا مسئلہ پیدا نہیں کر رہی بلکہ اپوزیشن کے ارکان بھی بجٹ اجلاس میں ’’عدم دلچسپی‘‘ لے رہے ہیں۔ جمعہ کو تحریک انصاف کے رکن لال چند کی نشاندہی پر کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی کارروائی تقریباً آدھا گھنٹہ معطل رہی۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب کے لئے روز کا مسئلہ بن گیا ہے وہ بھاگ دوڑ تو کرتے ہیں لیکن منہ زور حکومتی ارکان ان کی ایک نہیں سنتے وہ وزراء کو ایوان میں ارکان کو لانے کی استدعا کرتے نظر آتے ہیں۔جمعہ کو سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت میں14منٹ تاخیر سے شروع ہوا،تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول کے بعد سپیکرایاز صادق نے جوں ہی ایوان کی کارروائی شروع کی تو تحریک انصاف کے رکن لال چند نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کی جس پر گنتی کے بعد سپیکر ایاز صداق نے ایوان کی کارروائی کورم پورا ہونے تک معطل کرنا پڑی۔ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ایوان کی کارروائی تقریباً آدھا گھنٹہ معطل رہی ۔ اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز بھی موجود نہیں تھے۔ شنید ہے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں کورم کے مسئلہ کا معاملہ وزیراعظم محمد نواز شریف کے نوٹس میں لایا گیا ہے۔ انہوں بستر علالت سے قومی اسمبلی میں کورم پورا کرنے اور ایوان سے بجٹ منظور کرانے کی ذمہ داری ’’سخت گیر ‘‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سونپی ہے بجٹ منظور کرانے کیلئے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کا اجلاس آئندہ ہفتے بلایا جا رہا ہے جس میں ان ارکان کی سرزنش کئے جانے کا امکان ہے جن کی غیر حاضری کی وجہ سے حکومت کو ہر روز کورم ٹوٹنے سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شنید ہے وزیراعظم کو یہ تجویز پیش کی گئی ہے ارکان قومی اسمبلی کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری ان کی پارلیمنٹ میں حاضری سے مشروط کر دیا جائے اسی طرح غیر حاضر رہنے والے ارکان کے پارٹی ٹکٹ پر بھی نظر ثانی کی جا سکتی ہے ۔ تحریک انصاف کی رکن ساجدہ بیگم نے کہا کہ یہ معزز ایوان ہے ایوان میں خواتین کیلئے ٹریکٹر ٹرالی کے الفاظ پر مجھے اتنی شرم آئی کہ میں اسمبلی اجلاس سے اُٹھ کر گھر چلی گئی قومی اسمبلی ہے اگر یہاں عورت کی عزت نہیں ہوگی تو آنے والے بچے کیسے بہنوں مائوں کی عزت کریں گے۔ یہ صرف ایک خاتون کی بات نہیں ہے ملک بھر کی عورتوں کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہمینہ دولتانہ نے اس رپورٹ میں دوپٹہ اور چوڑیاں پھینکنے کی روایت قائم ہے ۔ سینٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان نے بجٹ پر بحث کے دوران وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ کی ایوان میں عدم موجودگی پر اعتراض کر دیا۔ انہوںنے کہا کہ فنانس بل کے ذریعے بالواسطہ قانون سازی نہیں ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم خواجہ نے کہا ہے کہ سینٹ کو منی بل کی منظوری کا اختیار اور پی اے سی میں سینٹ کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ سینٹ کی خواہش ہے کہ ایوان بالا کی پبلک اکائونٹس کمیٹی بنائی جائے، اب دیکھنا یہ ہے آئینی طور پر یہ ممکن بھی ہے کہ نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن