• news
  • image

عارضی وزیراعظم، ن لیگی سپیکر، قابل قبول معافی

خواجہ آصف نے تحریری معافی بھی ڈاکٹر شریں مزاری سے تقریری معافی کے بعد مانگی ہے۔ ایسے معافی مانگنے میں لطف آتا ہے بدتمیزی کرتے ہی اس لئے ہیں کہ معافی مانگی جائے مگر شیریں مزاری قابل قبول معافی چاہتی ہیں۔ خواجہ صاحب کیسے پارلیمنٹیرین ہیں کہ انہیں کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اسمبلی میں کہا تھا۔ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ یہ الفاظ ان کو بھی کہے جا رہے ہیں۔ وہ ایسی بات ہی کیوں کرتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان پر طنز کی جاتی ہے۔ ان پر غصہ جھاڑا جاتا ہے۔ وہ ان معاملات کیلئے خوش ہوتے ہیں کہ ان کی بڑی شہرت ہو رہی ہے۔ ان کا تذکرہ اخباروں ٹی وی چینلوں گلی کوچوں عام محفلوں میں کیا جا رہا ہے۔ وہ بہت مشہور ہو رہے ہیں وہ شہرت اور بدنامی میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
خواجہ آصف نے کئی بار ایک ہی معافی مانگی ہے انہیں جگت کرنے اور جملے مارنے کا شوق ہے اور پھر فوراً معافی مانگنے کا بھی شوق ہے۔
بختاور بھٹو زرداری اور آصف بھٹو زرداری نے مریم نواز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواجہ صاحب کو سبق سکھائیں۔ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ اب دیکھیں کہ مریم نواز کیا کارروائی کرتی ہیں۔ یہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے کہ خواجہ آصف سے بار بار معافی منگوائی جائے مگر یہ تو خواجہ آصف کیلئے سزا نہیں ہے ایک طرح سے جزا ہے۔ خواجہ آصف کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق بڑی پریشانی اور مشکل میں ہیں۔ وہ کیا کریں کیا وہ بھی معافی مانگیں؟
بختاور نے کہا کہ خواجہ آصف کے معافی مانگنے کا طریقہ غلط ہے۔ آخر وہ کس طرح معافی مانگیں۔ کیا کان پکڑ لیں۔ ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے گا خواجہ صاحب نے معافی مانگی جیسے معافی دے رہے ہوں۔ انہوں نے اس طرح پورے ارکان اسمبلی پر احسان عظیم کیا۔ انہیں تو معافی مانگنے کی عادت ہے۔
برادرم اعتزاز احسن نے بات ہی ختم کر دی ہے کہ جی ایچ کیو میں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کو طلب کیا گیا۔ اعتزاز احسن نے یہ بات اتنے وثوق سے کی ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ان کے سامنے ہوا ہو۔ اعتزاز کہتے ہیں کہ اس کا بدلہ انہوں نے اسمبلی میں آ کے لیا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری ایک آسان شکار کی طرح سامنے آ گئیں۔ سنا ہے کہ طلبی کے بعد جی ایچ کیو سے خواجہ صاحب باہر نکلے تو ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اسحاق ڈار کا چہرہ چڑھا ہوا تھا۔
کوئی بتائے کہ خواجہ صاحب وزیر دفاع کس لئے بنائے گئے تھے۔ وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ آج کل وزیر اعظم ملک میں نہیں ہیں۔ تو اسحاق ڈار اور خواجہ آصف ایک دوسرے کو سیاسی امور کا انچارج کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ ڈار اور خواجہ کا حال ایسا ہی ہے۔
من ترا قاضی بگویم تو مرا حاجی بگو
عابد شیر علی نے ڈاکٹر شیریں مزاری کے بارے میں کہا۔ شیریں مزاری ایک ایسے بچے کی طرح ہے جو ہر وقت دوسروں کی توجہ چاہتا ہے۔ عابد شیر علی یہ تو نہ کہیں کہ کابینہ میں انہیں بچہ وزیر کہا جاتا ہے۔ وہ جو حرکتیں کرتے ہیں اسے شرارتیں کہا جاتا ہے۔ عابد شیر علی اس طرف بھی توجہ دیں کہ انہیں خواجہ آصف کا چھوٹا وزیر کس لئے بنایا گیا ہے۔ نجی محفلوں میں کئی بار خواجہ صاحب نے کہا ہے کہ میرے چھوٹے وزیر عابد شیر علی کو ابھی سیاسی تربیت کی ضرورت ہے۔
خواتین ارکان اسمبلی نے سپیکر ایاز صادق پر جانبداری کا الزام لگایا ہے۔ ایاز صادق نے کہا کہ وہ جانبدار نہیں ہیں۔ وہ جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتے۔ تو پھر غلطی ان سے کیسے ہو جاتی ہے۔ ان پر خواتین اراکین اسمبلی نے الزام لگایا کہ وہ شیریں مزاری کے معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس میں عورت کا بھی معاملہ ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ شیریں مزاری تحریک انصاف سے ہیں اور خواجہ آصف سپیکر کی جماعت ن لیگ سے ہیں وہ اب صرف ن لیگ کے سپیکر کے طور پر آگے آ رہے ہیں۔ پہلے ایوان کے سپیکر کے طور پر پیچھے جا رہے تھے۔
وہ دوسری بار عبدالعلیم خان سے چند ووٹوں سے جیتے تھے۔ عبدالعلیم خان سے زیادہ دولت الیکشن مہم میں ایاز صادق نے لگا دی تھی۔ نجانے یہ پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا۔ اگر عمران خان ایاز صادق کے مقابلے میں ہوتے تو وہ آسانی سے ہار جاتے۔ عبدالعلیم خان بھی ایاز صادق کے مقابلے کے امیدوار تھے۔
قومی اسمبلی میں صرف پانچ دفعہ وزیراعظم نواز شریف گئے۔ ان کی ایوان میں موجودگی کے دوران ایاز صادق بہت الرٹ رہتے تھے۔ اب ان کے معاملات پاکستان میں مریم نواز دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے سیاستدانوں کی سرپرستی شروع کر دی ہے۔ وہ ابھی سے اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے لگ گئی ہیں۔
نواز شریف جب آپریشن کے بعد ہسپتال سے نکلے تو کوٹ پتلون میں ملبوس تھے۔ یہ مختلف قسم کا آپریشن تھا۔ نواز شریف کو کئی لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ آپریشن ضرب عضب کے مقابلے میں آپریشن ضرب غضب ہے۔ اسی لئے تو وہ ہسپتال سے ہشاش بشاش باہر آئے۔
ڈاکٹروں نے ان سے کہا ہے کہ وہ ڈیڑھ کلو میٹر چلیں۔ ان کا سانس نہ پھولے تو وہ ہوائی سفر کر سکتے ہیں۔ یہ سن کر کئی لوگ پھولے نہیں سماء رہے کہ وطن آنے سے بچنے کیلئے نواز شریف ڈیڑھ کلو میٹر چلیں گے ہی نہیں۔ وہ ایک کلو میٹر سے پہلے ہی اپنا سانس پھلا بیٹھیں گے۔ وطن میں ابھی آہستہ آہستہ پانامہ لیکس کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ کچھ دن اور لگیں گے۔
لوگوں کو باتیں کرنے کا بہانہ چاہیے کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوئی آپریشن وغیرہ نہیں ہوا ہے۔ دراصل نواز شریف نے سوچا کہ ان دنوں ملک سے باہر رہنا ہی ٹھیک ہے۔ ملک کی طرف سے انہیں کوئی فکر نہیں۔ ویڈیو لنک سے حکومت کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ اور پھر یہاں مریم نواز پوری طرح موجود ہیں۔ مریم نے تمام پارٹی معاملات اور سرکاری معاملات سنبھال لئے ہیں۔
سنا ہے کہ نواز شریف لندن سے سعودی عرب جا رہے ہیں۔ مگر شہباز شریف سیدھے پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ لندن میں حمزہ شہباز بھی تھے۔ ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ اللہ انہیں جہاں رکھے خیریت سے رکھے؟
چودھری نثار کی ملاقات آرمی چیف سے ان کے گھر پر کئی بار ہوئی ہے۔ خواجہ آصف اور اسحاق ڈار کو جی ایچ کیو طلب کیا گیا وزیراعظم کے طور پر نواز شریف پاکستان نہیں آئے تو اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ مسلم لیگ ن سے ہی ہو گا۔ نواز شریف پریشان ہیں کہ مریم نواز ایم این اے نہیں ہیں۔ ایسے میں نظر صرف چودھری نثار کی طرف جاتی ہے۔ میرے خیال میں وہ ایک اچھے عارضی وزیراعظم ثابت ہونگے۔ مجھے یقین ہے کہ شہباز شریف اس خیال کی حمایت کریں گے۔ اگلے الیکشن کیلئے بھی یہ ایک اچھا فیصلہ ہو گا۔ کہ لوگ موروثی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔ سکھ کا سانس لیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن