محمد علی لیجنڈ باکسر مگر کوئی لیجنڈ امریکی حکمران؟
محمد علی صرف باکسنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور نہ تھا وہ اس لیے بھی محبوب اور مقبول ہوا کہ وہ مسلمان ہوا۔ یہ بھی طاقت کا مظاہرہ ہے۔
اللہ نے اسے یہ عزت دی کہ اس کا جنازہ اتنا بڑا تھا۔ اس جنازے کو لوگوں نے اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ امام احمد بن حنبل ؒنے ایک موقع پر کہا تھا یہ جنازہ ثابت کرے گا کہ سچا کون ہے۔ محمد علی کا جنازہ ہر ملک میں پہنچا ہوا تھا اور یہ ثابت ہو گیا کہ محمد علی سچا بھی تھا اور بڑا بھی تھا۔
ایک سٹیٹس مین کی طرح زندگی نے اسے الوداع کہا۔ وہ کئی زندگیاں جی کر گیا۔ اپنا سفر آخرت ایک سربراہ کی طرح طے کیا۔ وہ حکمرانوں کی طرح جیا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے مر گیا۔ مر کر امر ہو گیا۔ امر ہونے کے لئے مرنا ضروری ہے۔
سابق امریکی صدر کلنٹن اس کے آخری سفر میں ایک دل والے مسافر کی طرح شریک ہوا۔ اس بات پر میں یہ اعلان کرنے مجبور ہوا ہوں کہ اب اس کی اہلیہ ہیلری کلنٹن ضرور صدارتی انتخابات جیت جائے گی۔ امریکہ کی پہلی خاتون صدر۔ نجانے کیوں پاکستان میں لوگ چاہتے تھے کہ اوبامہ جیت جائے۔ اب چاہتے ہیں کہ ہیلری جیت جائے۔ اس جیت سے بھی پاکستان کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ صدر اوبامہ وزیراعظم مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے نہ بھارت قابل اعتماد ہے نہ امریکہ قابل اعتماد ہے۔ دونوں پر ایک دوسرے کی دوستی کا پردہ جلدی چاک ہو گا۔ ایک مشہور مصرعہ ہے:
نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی
میں کہتا ہوں کہ امریکہ اب تک اپنے دشمنوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ امریکہ نے ہمیشہ دوستوں کو ذلیل کیا ہے۔ بلکہ ذلیل و خوار کیا ہے۔ یہ بات امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بے نظیر بھٹو سے کہی تھی۔ جب اسے خود یہ خیال تھا کہ وہ وزیراعظم بن کے پاکستان کی صورتحال تبدیل کر دے گی۔ اسے قتل کروا دیا گیا۔ بھٹو کو تختہ دار پر لٹکوا دیا گیا۔ وہی لیڈر تھا۔ اس کے بعد کچھ نظر نہیں آتا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا کہ میرے بعد زمانہ روئے گا۔ کس قدر احمق لوگ ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں بھٹو کا قاتل صدر جنرل ضیاالحق ہے تو پھر صدر جنرل ضیاالحق کا قاتل کون ہے؟ عراقی صدر صدام اسرائیل کی دشمنی میں امریکہ کے بھی خلاف تھا۔ پھر وہ امریکی دوستی میں پھنسیایا گیا۔ ایران سے لڑوایا گیا اور اقتدار سے فارغ کر کے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ یہی حال صدر قذافی کا ہوا۔ مصر میں امریکہ جمال عبدالناصر کا کوئی کچھ بگاڑ نہ سکا مگر صدر انوارالسادات کا کیا حشر ہوا۔
شاہ ایران سے زیادہ قریب امریکہ کے کون تھا۔ اسے دو گز زمین بھی قبر کے لئے امریکہ میں نہ ملی۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
امام خمینی کتنا بڑا خطرہ امریکہ کے لیے بن گیا مگر اسے عالم اسلام کا لیڈر نہ بننے دیا گیا۔ وہ ایک شیعہ لیڈر بن کے رہ گیا۔ میں اس کا گھر دیکھنے گیا۔ اندرون شہر تین مرلے کا مکان جہاں ایک عظیم لیڈر نے آخری دن گزارے۔ تہران میں امریکیوں کو یرغمال بھی بنایا گیا۔ مگر اب پاکستان کے خلاف ایران کو استعمال کرنے کی مشق جاری ہے۔
گوادر پورٹ کے مقابلے میں چاہ بہار پورٹ ایران میں بنائی جا رہی ہے۔ گوادر چاہ بہار میں زیادہ فاصلہ بھی نہیں ہے۔
کبھی کسی حکمران کے لیے کوئی آدمی عاشق ہونے فین ہونے کی بات نہیں کرتا۔ فین ہمیشہ کھلاڑیوں فنکاروں ادیبوں شاعروں کے ہوتے ہیں۔ حکمران وغیرہ اور وزیر شذیر تو آف دی ریکارڈ سرگرمیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ حکمران وغیرہ تو اکثر و بیشتر صرف حکومت کرتے ہیں۔ لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔ کرپشن اور ذاتی کاروبار میں ان کی دلچسپی بہت ہوتی ہے۔ وہ تو کوئی معرکہ نہیں کرتے۔ معرکہ آرائی بھی نہیں کرتے۔
محمد علی کے لیے کہا جا رہا ہے کہ لیجنڈ باکسر ہے۔ کسی حکمران کے لیے نہیں کہا جاتا کہ وہ لیجنڈ حکمران ہے۔
ایک کتاب مجھے برادرم فہیم فارانی اینکر پرسن نے دی ہے، ’’شاہی قلعہ سے جلو پارک‘‘۔ کتاب کے لکھنے والے جاوید احمد بٹ ہیں۔ ان کا تعلق تو جماعت اسلامی سے ہے مگر کتاب میں جماعت اسلامی کے لیے ان کا تنقیدی انداز دیکھ کر حیرت ہوئی۔ انہوں نے کھل کر جماعت کے متنازعہ معاملات پر تنقید کی اور اس حوالے سے جماعت کے لوگوں کی کوئی پرواز نہ کی۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے میرا ایک تنقیدی کالم بھی بٹ صاحب نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس طرح کے لوگ ہر پارٹی میں ہونا چاہئیں۔ صرف ہاںمیں ہاں ملاتے نہ ہوں بلکہ نہیں میں نہیں ملانے والے تو بالکل نہ ہوں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں پارٹی لیڈر کی جاگیریں ہوتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں ماحول اسلامی ہے یا نہیں ہے مگر نسبتاً جمہوری ضروری ہے۔ برادرم لیاقت بلوچ اور امیر العظیم بڑے کشادہ دل والے دوست ہیں۔ سراج الحق کٹڑ مذہبی پس منظر کے آدمی ہیں مگر ان کی تقریریں سن کر جی چاہتا ہے کہ ان سے بھی کوئی ملاقات ہو۔ کشادگی ہی کشیدگی کو ختم کر سکتی ہے۔ میرے کئی مخالفانہ کالموں کے لیے سراج الحق صاحب کا دوستانہ انداز پسند آیا۔ وہ صوبائی سطح کے سیاستدان تھے مگر اب جماعت کو قومی فضا نصیب ہو رہی ہے۔ جاوید احمد بٹ کی کتاب ایک ادبی اسلوب لئے ہوئے ہے۔ مجھے اسے پڑھنے میں ایک انوکھا لطف محسوس ہوا۔ شاہی قلعہ اور جلو پارک میں فاصلہ کم ہے مگر اسے بھی ایک دلچسپ سفر نامہ کہا جا سکتا ہے۔ مجھے نعیم صدیقی یاد آ گئے۔ انہیں پڑھنا ایک آسودگی دیتا ہے۔ مگر ان سے ملنا مل کر بات کرنا خاصا دشوار کام تھا۔ میں جاوید بٹ سے نہیں ملا۔ ان کی کتاب نے ایک اچھی ملاقات کی کیفیت سے آشنا کیا ہے۔ شاہی قلعہ کی یادیں بہت لوگوں کے پاس ہونگی۔ پڑھنے والوں کو اس دنیا میں شریک کرنا چاہیے۔