• news
  • image

دنیائے باکسنگ کے شہنشاہ محمد علی سے آخری ملاقات

باکسنگ کی عالمی تاریخ میں ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن کا 3 بار غیر معمولی اعزاز حاصل کرنے والے دنیا کے پہلے سیاہ فارم عظیم Legend باکسر محمد علی بھی اگلے روز 74 برس کی عمر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے (انا للہ و انا الیہ راجعون) موت سے چند ثانیے قبل انکے آخری الفاظ جو انہوں نے اپنے بچوں اور اہلیہ سے کہے وہ یہ تھے کہ ”میں اپنے مالک حقیقی کے پاس جا رہا ہوں۔ اس لیے میری وفات کے بعد رونا نہیں۔ میری میرے رب سے اب صلح ہو گئی ہے۔“ 2 برس قبل جب وہ لندن آئے تو میں ان خوش نصیب برطانوی کالم نگاروں میں تھا جنہیں محمد علی سے ملاقات کا وقت مل گیا۔ میرے لیے یہ دن عید سے کم نہ تھا۔ لندن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے ہیتھرو کے شعبہ تعلقات عامہ نے چند مخصوص صحافیوں اور کالم نگاروں کو ان سے صرف 7 منٹ بات چیت کرنے کے لیے دیئے تھے۔ محمد علی اپنی اہلیہ کے ہمراہ صوفے پر بیٹھے ایک انگریزی جریدے کی ورق گردانی کر رہے تھے۔ ہلکی زرد رنگت، کمزور جسم اور ہاتھوں میں ارتعاشی کیفیت دیکھ کر پہلے مجھے صدمہ اور پھر خوشی ہوئی۔ مسرت اس لئے! کہ میرے سامنے دنیائے باکسنگ کا وہ شہنشاہ بیٹھا تھا جسے ایک نظر دیکھنے کے لیے دنیا اُمڈ آتی تھی۔ ”سلام مسٹر علی“ میں نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے جونہی سلام کیا! محمد علی نے جریدے سے نظریں اٹھاتے ہوئے میری جانب دیکھا اور پھر انتہائی نحیف آواز میں دوبارہ میری جانب دیکھتے ہوئے ”وعلیکم اسلام“ کہا! اپنا نام بتانے کے بعد میں نے مختصر چند سوال پوچھنے کی درخواست کی تو انہوں نے آہستہ سے اپنے تھرتھراتے ہاتھوں پر قابو پاتے ہوئے پوچھا "Where you origonaly come from Brother Noorani" برطانوی پاکستانی ہوں۔ محمد علی نے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی اور ماشا اللہ کہا! وقت کو میں کسی حال میں ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا "Go Ahead" مگر سوال مختصر رکھیں؟ آپ کی پیدائش کہاں ہوئی؟ میں نے پہلا سوال کیا۔ امریکہ کے ایک قصبے Lewis Village میں 17 جنوری 1942ءکو 6 بجکر 35 منٹ پر پیدا ہوا۔ وقت پیدائش پر مسکراتے ہوئے انہوں نے جواب دیا۔ تعلیم حاصل کی؟ ہاں! مگر سکول تک ہی محدود رہا ایک شریر بچہ تھا، الجبرا، جیومیٹری، اراضی، تاریخ اور جغرافیہ میں انتہائی نکما تھا۔ بہت کوشش رہی کہ باسکٹ بال کا کھلاڑی بن جا¶ں مگر اصل توجہ پہلے دن سے ہی باکسنگ سیکھنے پر مرکوز رکھی اور یوں اپنی محنت سے عالمی چیمپئن تو بن گیا مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت نہ بن سکا! امریکہ ہی نہیں یورپ میں بھی کالے گورے کا فرق نمایاں ہے۔ جو آپ بھی جانتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کو یہ بات کیسے ذہن نشین کروائی جائے کہ 

"ALLAH is not White" .... "All
Colours Belongs to ALLAH"
پھر قدرے توقف کے بعد سانس درست کرتے ہوئے محمد علی بولے! عیسائیوں کو کیا یہ معلوم ہے کہ خداوند یسوع مسیح سفید تھے یا کالے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں عالمی چیمپئن بنا تو امریکہ میں بھونچال آ گیا تھا؟ محض اس لئے کہ میں رنگدار ہوں۔ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کو کیسا لگا؟ سب سے پہلے اپنے آپ کو انتہائی Lucky تصور کرتا ہوں کہ میرے رب نے اپنے لیے میرا انتخاب کیا۔ میں اس رب کائنات کے آگے سر جھکا کر یہی دعا کرتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ وہ سیدھی راہ پر چلائے کہ میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے بعد یہی دعا مانگتا ہوں۔ آپ کا شمار دنیا کے انتہائی امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے اتنی دولت کہاں استعمال کرتے ہیں؟ پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دوں کہ اس دولت کو میں نے اب دکھی انسانیت کی خدمت اور خیراتی منصوبوں کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ دولت اور شہرت واقعی میرے پاس بہت ہے مگر آپ کو میں ایک اصول بتائے دیتا ہوں کہ انسان کی حقیقی دولت اس کا علم ہے جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا۔ دولت آپ بنک میں بھی اگر رکھیں تو اس کے حساب کیلئے علم ہی درکار ہو گا۔ بالکل یہی معاملہ شہرت کا ہے۔ شہرت دیرپا نہیں ہوتی جبکہ نیک نامی اور مضبوط کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ موت سے اگر ڈر ہوتا تو باکسنگ رنگ میں کبھی نہ اُترتا۔ ان سے میرا آخری سوال یہ تھا کہ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد تاریخ انہیں یاد رکھے گی؟ ہلکی مسکراہٹ لیے وہ بولے! یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر یہ بات سو فیصد درست ہے کہ دنیا سے چلے جانے کے بعد دنیا کم از کم مجھے کبھی فراموش نہ کر پائے گی۔ میرے لیے دعا کریں اور امت مسلمہ کے لیے بھی! محمد علی نے انتہائی نحیف آواز میں کہا اور معانقہ کرنے کے بعد ”ویل چیئر“ پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈیپارچر گیٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن