عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا، اپوزیشن: بجٹ خوشخبری ہے، حکومتی ارکان
اسلام آباد (خبر نگار+ ایجنسیاں) سینٹ اور قومی اسمبلی میں بجٹ پر گذشتہ روز بھی بحث جاری رہی۔اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے متوسط طبقہ اور غریب عوام کا دشمن قراردیا ، بجٹ میں تمام ٹیکس ایسے ہیں جس سے امیروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ عوام پس رہے ہیں۔ متحدہ کے عتیق شیخ نے کہا کہ اس وقت ملک کا ہر بچہ ایک لاکھ کا مقروض ہو چکا ہے، اکنامک سروے پر بہت انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔ پیش کئے گئے اعداد و شمار کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، ہر کوئی مہنگائی کا شور مچا رہا ہے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ این ایف سی کے بغیر یہ بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ کیا اسے آئینی کہا جا سکتا ہے؟ اعداد و شمار سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ لوڈ شیڈنگ کی صورتحال بہترین نہیں ہو سکی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں دیا گیا۔ سینیٹر صالح شاہ نے کہا ہے کہ قبائلی علاقے آفات، دہشت گردی اور آپریشنوں سے بے تحاشا متاثر ہوئے، فاٹا کی ترقی کے لئے بجٹ میں بہت کم پیسے رکھے گئے، سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے، ضروریات زندگی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں، ڈیری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں، یہ بچوں کی ضرورت کی اشیاء ہیں۔ سینیٹر اچکزئی نے کہا کہ وزیراعظم نے سی پیک پر آل پارٹیز کانفرنس میں مغربی روٹ کو ترجیح دینے کا وعدہ کیا تھا، بجٹ میں مغربی روٹ کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا، نہ ڈیزائن تیار ہوا نہ فزیبلٹی بنی، نہ زمین کے حصول کے لئے رقم رکھی گئی۔ پھر 2018ء تک یہ کیسے مکمل ہوگی۔ بابر اعوان کہا کہ بجٹ 18 ویں ترمیم کی روح کے خلاف ہے، این ایف سی مردم شماری کے بغیر ہے، سینیٹ پارلیمان کا برابر کا حصہ ہے، 22 ویں آئینی ترمیم منظور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مچھلی گوشت، مرغی، چاول سستے کئے جائیں۔ سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے، ملک میں معاشی استحکام آئے گا، ملک میں حالات بہتر ہیں۔ سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ بجٹ سے عام آدمی کی زندگی پر بہتر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ دفاعی بجٹ بہت کم ہے، پاکستان کو اس وقت خطے میں مشکلات کا سامنا ہے اور دفاعی بجٹ بڑھانا ضروری ہے۔سینٹ آف پاکستان کا بجٹ برائے مالی سال 2016-17ء ایوان بالا میں پیش کر دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ سنیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ آئندہ فنانس کمیٹی کی منظوری سے قبل سینٹ سے بجٹ کی منظوری حاصل کی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رکن ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ 2016-17 کا پرانے پاکستان اور ایک ہی صوبے کا بجٹ ہے، اٹھارہویں ترمیم کے بعد مردم شماری ہونی چاہئے تھی اور تمام صوبے اپنی آبادی کے لحاظ سے بجٹ بناتے۔ پہلی دفعہ مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کو چوتھا بجٹ پیش کیا ہے، موجودہ بجٹ ویژن سے عاری ہے، وزراء کو اپنے احتساب کیلئے خود کو پیش کرنا چاہیے، حکومت اگر منشور کے تحت پیش کرتی تو بہتر ہوتی، یہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے عوام دشمن بجٹ تیار کیا گیا، حکومت ڈائریکٹ ٹیکسز لینے میں ناکام ہو چکی ہے، یہ ناکام لیگ کی ناکام بجٹ پالیسی ہے، مسلم لیگ (ن) کی فرحانہ قمر نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں 21فیصد اضافی فنڈز مختص کئے گئے ہیں تا کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور صنعتوں کو تعطل کے بغیر بجلی فراہم کی جا سکے، حکومت نے زراعت کے شعبے کو سبسڈی دے کر قابل تعریف اقدام اٹھایا ہے، تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اسحاق ڈار اعداد و شمار کے جادوگر ہیں، ان پر اعداد و شمار میں ردوبدل کرنے کا سنگین الزام ہے، جی ڈی پی کے اعداد و شمار پر بڑی بات ہو رہی ہے۔ اسحاق ڈار نے سوئس بینک سے 200 ارب ڈالر واپس لانے کا اعلان کیا تھا مگر اس طرف آج تک کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، سوئس بینک کا قانون ہے کہ اگر کوئی حکومت واپسی کیلئے رابطہ کرے تو اکائونٹ ہولڈر کو ثابت کرنا ہو گا کہ یہ رقم اس کی ہے، حکومت کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کرپشن کی رقم ہے، سب سے زیادہ کالا دھن پراپرٹی میں ہے، اس لئے پراپرٹی ٹیکس عائد کیا جائے۔ جسٹس افتخار چیمہ نے کہا کہ بجٹ میں کھاد کی قیمتوں اور ٹیوب ویل بجلی کی قیمتوں میں کمی عوام کیلئے خوشخبری ہے، ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور پنشن میں10فیصد اضافہ قابل اقدام ہے، نریندر مودی پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں بھاگ دوڑ کر رہا ہے، اس کا مقصد پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانا اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو عالمی تحویل میں دلوانا ہے، عالم مغرب میں تو اس کی پذیرائی سمجھ آئی ہے مگر اسلامی ممالک میں اس کی آئو بھگت سمجھ سے بالاتر ہے، یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے، شہباز شریف کو وزیر خارجہ بنایا جائے وہ 6 ماہ کے اندر سفارتی پیش رفت کر کے دکھا سکتے ہیں، حکومت چاول کی امدادی قیمت کا اعلان کرے اور پاسکو کو پابند بنائے کہ کسانوں سے تمام چاول اچھی قیمت پر خریدے ورنہ کاشتکاروں کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے اور وہ لاٹھیاں اور کلہاڑیاں اٹھا کر نظام کے خلاف نکل پڑیں گے، ملک مغربی نظام عدل ناکام ہو چکا، یہ مہنگا اور تاخیر کا شکار ہے، اس کی جگہ ایک متبادل نظام عدل فراہم کرنا ہو گا۔ نسیمہ حفیظ نے کہا کہ 20 کروڑ عوام کے ساتھ بجٹ میں بھی امتیازی سلوک برتا گیا ہے، خواتین ارکان کو ترقیاتی بجٹ سے محروم رکھا گیا ہے اگر پارلیمنٹ میں خواتین کو حق نہیں ملے گا تو ملک میں کیا حال ہو گا، مسلم لیگ (ن) کے طاہر اقبال چوہدری نے کہا کہ حکومت کے اقدامات سے مہنگائی کی شرح 3 فیصد پر لائی گئی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہوا، معاشی ترقی کی شرح نمو میں کم اضافہ تشویشناک ہے جس کی وجہ زرعی پیداوار کا کم ہونا ہے، اس بجٹ میں زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے اہم اقدامات کئے گئے ہیں، زرعی شعبے میں ترقی کی شرح اس سال 0.9فیصد رہی جو 25 سال میں کم ترین ہے، شیخ صلاح الدین نے کہا کہ بدقسمتی سے اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں رمضان المبارک میں ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، بچوں کی کتابوں کاپیوں پر ٹیکس قابل مذمت ہے اسے فی الفور واپس لیا جائے، پیپلز پارٹی کے عوام ظفر لغاری نے کہا کہ گزشتہ 3سالوں میں ایک ہی بجٹ کو بار بار تبدیل کر کے پیش کیا جا رہا ہے، 2013 میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کا کشکول توڑ دیں گے مگر وہ کشکول بڑھ کر دیگچہ اور دیگچے سے ٹینکی بن چکا ہے مگر وہ ٹوٹ نہیں رہا، مسلم لیگ (ن) کے رحیم عالم خان نے تحریر پڑھتے ہوئے کہا کہ جس طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے اس طرح اولڈ ایج بینیفٹ کے عمر رسیدہ پنشنرز کی پنشن میں کم از کم 10ہزار روپے اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مثبت سفارشات دینے کی بجائے یہاں تنقید کی جاتی ہے، گزشتہ دنوں خواجہ آصف صاحب نے معزز رکن سے معذرت کی مگر ان پر تنقید کرنے والوں میں سے ایک صاحب تو ٹی وی پر شادی کے سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ جب تازہ دودھ مل رہا ہے تو بھینس کیوں پالیں۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے اپنے صوبے میں تبدیلی نہیں لا سکے، پورے ملک میں تبدیلی کیسے لائیں گے، شیریں مزاری نے کہا کہ میں نے سوچا حکومت کی جانب سے جملوں کا جواب دوں مگر قوم اور میڈیا نے ان سے انتقام لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ کرمنل جوڈیشل ریفارمز پر ابھی تک کام شروع نہیں ہوا، مدرسہ ریفارمز پر کام آگے نہیں بڑھ رہا۔ قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس افطار کنے وقت تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ دونوں لابیز کے ارکان موجود رہیں افطاری کا انتظام کیا گیا ہے۔ ایوان میں ارکان کم ہونے کے باوجود کسی اپوزیشن رکن نے کورم کی نشاندھی نہیں کی۔