’’را‘ ‘کی پاکستان میں سرگرمیوں کے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں: سرتاج عزیز
اسلام آباد(خبرنگار+ ایجنسیاں) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ گوادر کی افادیت چاہ بہار سے زیادہ ہے، گوادر کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں، گوادر گہرے پانی کی بندرگاہ ہے، چین اپنی تجارت اس بندرگاہ کے ذریعے کرے گا تو اس بندرگاہ کو بے پناہ ترقی حاصل ہوگی، پاکستان ایران سے پابندیاں ہٹنے کے بعد اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لئے کوشاں ہے، پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے امریکی کانگریس سے پاکستان کے خلاف خطاب کا موثر تدارک کیا، ’’را‘‘ کی پاکستان میں سرگرمیوں کے شواہد تیار کر رہے ہیں، نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کے لئے بھارت کو استثنیٰ نہیں ملے گا۔ پیر کو ایوان بالا میں سینیٹر عتیق شیخ کی تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے مشیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے چاہ بہار اور گوادر بندرگاہ کو سسٹر بندرگاہیں قرار دینے کے حوالے سے ایک ایم او یو پر دستخط کئے ہیں اور ان کے درمیان ریلوے لائن بچھانے کی تجویز زیر غور ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیا کہ گوادر کی ترقی کا کام سست رفتاری کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران اس حوالے سے کافی کام ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چین اپنی تجارت کا 10 فیصد بھی گوادر کے ذریعے منتقل کرے تو اس کو بہت زیادہ ترقی حاصل ہوگی۔ رپورٹس کے مطابق چین اپنے جنوبی حصے کے لئے تیل کی درآمدات کا 17 فیصد گوادر کے ذریعے منگوانے کا منصوبہ رکھتا ہے پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں۔ انہوں نے خلیج تعاون کونسل کے ممالک کے بھارتی وزیراعظم کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اقتصادی اور تجارتی جہتیں ہیں۔ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ زیادہ گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے وسیع جیو پولیٹیکل فیکٹرز بالخصوص چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کی امریکی پالیسی ہے جس میں بھارٹ فٹ بیٹھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی کا امریکی کانگریس سے خطاب پاکستان کے خلاف تھا اور ہم نے اس کا موثر تدارک کیا ہے اور اس سلسلے میں مزید اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت غیر ریاستی عناصر کے حوالے سے پاکستان پر الزام تراشی کرتا رہا ہے اور پاکستان بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کے شواہد تیار کر رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں نان این پی ٹی ممالک کی شمولیت کے لئے کرائیٹیریا بیسڈ اپروچ اپنانا ہوگی اور یہ معیار سب کے لئے ایک ہونا چاہئے۔ پاکستان کے موقف کو بہت سے ممالک کی جانب سے پذیرائی ملی ہے اور اس کے نتائج ہمارے حق میں ہوں گے۔ چیئرمین سینٹ کے استفسارات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان غیر ملکی امداد پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے۔ امریکہ بھارت فوجی تعاون کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ خطے میں عدم توازن میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی مفادات کا تحفظ کیا ہے اور اپنے سے 7 گنا بڑے دشمن کا سامنا کیا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے اور اس کی دہشت گردی کے انسداد کے لئے کوششیں ایک مثال ہیں۔ قبل ازیں سینیٹر عتیق شیخ نے اپنی منظور شدہ تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ سے گوادر کی بندرگاہ کے لئے کیا مسائل پیدا ہوں گے، ہم نے اب تک گوادر کی بندرگاہ کے لئے کیا کام کیا ہے؟ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ریاست کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ریاست کے اندر اقوام کے اپنے مفاد ہوتے ہیں۔ ہم نے نہ ریاست کے مفادات کا خیال کیا نہ ریاست میں بسنے والی اقوام اور عوام کا، افغانوں کو ہم نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر بہت تنگ کیا۔ پاکستان میں تین اقوام اور صوبے مطمئن نہیں، بھارت اپنے قومی مفادات میں کام کر رہا ہے، ہماری خارجہ پالیسی پارلیمان کے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے تابع ہے، اس صورتحال میں ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکی خارجہ پالیسی میں سٹریٹجک شفٹ آ رہا ہے، جنگیں تو وہ ہار گئے ہیں، اب وہ پاکستان سے تعلقات کو مختلف کر رہے ہیں۔ مودی کی کانگریس میں تقریر پاکستان کے خلاف تھی، سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ سپر پاورز کے مابین ایشیا میں نئی پاور گیم چل رہی ہے۔ سینیٹر ولیمز نے کہا کہ اشرف غنی پاکستان کے حق میں تھے، اب ہم پر اعتماد نہیں کرتے، گوادر کے منصوبے پر فوری پیش رفت کی جائے اور اسے ترقی دی جائے۔ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لئے سفارت کاری کا طریقہ غلط ہے، پاکستان کے گرد معاشی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، قوم کو کس بات پر خاموش کیا جائے گا۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ چاہ بہار کی بندرگاہ گوادر کی بندرگاہ کو بہت متاثر کرے گی۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت سی پیک کا جو بڑا منصوبہ لے کر آئی ہے اس کی وجہ سے بھارت کا وزیراعظم دنیا میں گھومتا پھر رہا ہے، سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دنیا میں اب معاشی بلاک بن رہے ہیں، ہمیں پڑوسیوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ دنیا بھر میں بندرگاہیں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں اور سب چلتی ہیں، ہمیں گوادر کو ترقی دینی چاہئے۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی خارجہ اور دفاع کے مشترکہ اجلاس میں سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ کا تصور ختم ہوچکا ہے‘ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا گیا تو پورے خطے کو نقصان ہوگا‘ پاکستان کے پاس نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے سوا کوئی آپشن نہیں‘ افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کی محفوظ جنت بنتے جارہے ہیں۔ بھارت خطے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے۔ پاکستان نے قومی مفادات کے لئے امریکی کانگریس میں لابی کے لئے دو لابسٹس کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ کا پاکستان میں ہمیشہ فوجی آمروں سے تعلق رہا جب بھی امریکہ کو ہماری ضرورت پڑی ہمارے ملک میں فوجی حکومتیں تھیں۔ ایف سولہ کے معاملے پر امریکی انکار کے بعد ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں کے حصول کے لئے روس‘ اردن اور دیگر ممالک سے رجوع پر غور کیا جارہا ہے۔ ہم کشیدگی نہیں چاہتے بھارت کی جانب امریکی جھکائو خطے میں عدم توازن کا باعث بنا تو پاکستان کے پاس نیوکلیئر کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ پاکستان خطے میں بھارتی بالادستی کی خواہش کا چھ دہائیوں سے موثر مقابلہ کررہا ہے۔ پاکستان سفارتی سطح پر ہرگز تنہا نہیں ہوا بلکہ قابل اطمینان کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔ امریکہ پر ہمارا انحصار درحقیقت کچھ بھی نہیں۔ بھارت کے خلیجی ریاستوں میں تعلقات معاشی سطح کے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی اپنے مفادات اور سالمیت کا دفاع کیا ہے دنیا ہمارے مذاکرات کے عمل کی حمایت کررہی ہے۔انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ پاکستان خطے میں تنہا رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تمام وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سینٹ چیئرمین رضا ربانی نے کہا کہ ہم ڈالروں کی تلاش میں اپنے قومی مفاد کوامریکہ کے سکیورٹی مفاد میں ڈبو دیتے ہیں جس پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا ہمیں اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے، ڈالروں کی تلاش نہیں۔انہوں نے کہا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں خطے کی سٹریٹجک سیاست اہم ہے۔ بھارت کے امریکہ اور ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کا حوالہ دیتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا خطے کی بدلتی ہوئی سیاست میں جہاں امریکہ چین کو دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں بھارت کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہمارا چین کے ساتھ تعلق بہت اہم ہے۔ وہ ہمارا دوست اور ہمسایہ ملک ہے۔ بھارت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ خود بھارت میں تشویش پائی جاتی ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بھارت کی یہ پالیسی اچھی ہے یا نہیں، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کی پالیسی موثر ثابت ہورہی ہے۔ بھارت غیر ریاستی عناصر کی شکایت کررہا ہے۔