چوہدری نثار کی عدم موجودگی‘ ارکان کی بغاوت‘ حکومت کیلئے ’’لمحہ فکریہ‘‘
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے ’’ناراض ارکان ‘‘نے ’’وزراء کے طرز عمل ‘‘ کے خلاف احتجاج کا’’ انوکھا طریقہ ‘‘تلاش کر لیا وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحقٰ ڈار کی بجٹ بحث پر اختتامی تقریر کے دوران ایوان سے غیر حاضر رہ کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا مسلم لیگ (ن) کے اندر کافی دنوں سے لاوہ پک رہا تھا جو جمعہ کو اس وقت پھٹ پڑا جب وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور محمد اسحقٰ ڈار تقریر کر رہے تھے یہ ڈرامہ اس وقت رچایا گیا جب قائد ایوان محمد نواز شریف لندن میں زیر علاج ہیں اور ان کے اوپننگ بیٹسمین چوہدری نثار علی خان لاہور گئے تھے مسلم لیگ(ن) کے اندر ناراض گروپ بنانے والے وہ ارکان بھی شامل ہیں جو مسلم لیگ (ق) سے آئے ہیں ان کا گلہ ہے کہ بعض وزراء ان سے ہاتھ بھی ملانے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے بعض وزراء ان کے فون تک نہیں سنتے یہ ساری صورت حال اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ وزیر اعظم علالت کے باعث ایوان میں نہیں آرہے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ پارلیمانی پارٹی کا کوئی انچارج ہے اور نہی چیف وہپ۔ بے چارے شیخ آفتاب کی کوئی سنتا نہیں ۔ اگر وزیر اعظم چوہدری نثار علی خان کو پارلیمانی پارٹی کے اندر ڈسپلن کی ذمہ داری سونپ دی جاتی تو ارکان کی حاضری کو یقینی بنایا جاسکتا تھا لیکن پارٹی کے اندر گروپ بندی کی وجہ سے وزیر اعظم نے ان کو ذمہ داری نہیں سونپی یہ بات قابل ذکر ہے چوہدری نثار علی خان کچھ دیر کے لئے بھی ایوان میں موجود ہوں تو ارکان بھاگے دوڑے ایوان میں آجاتے ہیں اور ان کے گرد جمگھٹا لگ جاتا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے وہ بھی دل برداشتہ ہو گئے ہیں وہ پارلیمانی کا اجلاس بلانے والے تھے لیکن بوجوہ وزیر اعظم کی آمد تک موخر کر دیا کیونکہ ان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کچھ لوگوں کو بیٹھنا اچھا نہیں لگتا وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور محمد اسحقٰ ڈار نے تقریر کے دوران کچھ حکومتی ارکان ایوان سے اٹھ کر چلے جانا اور کچھ ارکان پہلے ہی لابی میں بیٹھ جانا خالی از علت نہیں یہ حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت میں 30،35ارکان ’’باغی گروپ‘‘ بن جانا معمولی بات نہیں وزراء کو نہ صرف اپنا رویہ درست کرنا چاہیے بلکہ ارکان اسمبلی کی عزت وتقیر کا خیال بھی کرنا چاہیے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلسل کوم ٹوٹنے کی وجہ بھی سا منے آگئی ہے وزیر دفاع خواجہ آصف مذاکرات کے ذریعے ناراض ارکان کو ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرا کر ایوان میں لے تو آئے ابھی کٹوتی تحاریک کی منظوری کا مرحلہ آنا ہے خاص ظور ’’منی بل‘‘ کی منظوری کے وقت حکومتی ارکان غائب ہو گئے تو حکومت کے لئے بل منظو رکرانا مشکل ہو جا ئے بل کی نامنظوری کا مطلب حکومت کا گرنا ہو تا ہے ، ناراض ارکان میںرائو اجمل، جعفر اقبال، سعید منہیس، ریاض الحق ججہ، نجف عباسی سیال، رجب بلوچ ، رضا حیات ہراج، شہاب الدین، عیباداللہ پیش پیش تھے آفتاب شیخ اور ریاض پیرزادہ نے حکومتی ارکان کی لابی میں جا کر ارکان سے مذاکرات کئے انہیں ارکان کے مسائل سے آگاہی ہو گئی ہے انتخابی حلقوں کے مسائل، تنخواہوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے حل کی یقین دہانی کرا دی گئی ہے وزیراعظم کی وطن واپسی پر ان کی ملاقات بھی کرائی جائے گی ارکان کی تنخواہوں، حلقوں کے مسائل اور ترقیاتی منصوبوں کی عدم فراہمی سمیت تمام مسائل حل کرانے کا وعدہ کیا گیا ہے ، جمعہ کو بھی قومی اسمبلی میں پہلی بار اجلاس کے آغاز کے کچھ دیر بعد کورم کی نشاندہی کر دی گئی جس کے باعث اجلاس کی کارروائی ایک گھنٹہ تک معطل رہی حسب معمول تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے کورم کی نشاندہی کی سپیکر قومی اسمبلی نے گنتی کرائی ایون میں کورم پورانہیں نکلا ۔ اجلاس کی کارروائی کورم پورا ہونے تک ملتوی کر دی گئی۔ دوبارہ اجلاس 12بجے شروع ہوسکا سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور آفتاب شیخ کی عدم شرکت پر چیئرمین سینیٹ کا اظہار ناراضی کیا ، قائدایوان راجہ ظفرالحق نے کہا وفاقی وزیر کو صدرمملکت ممنون حسین نے بلایا ہے، چیئر مین سینیٹ میا ں رضا ربانی نے کہا کہ صدر بھی پارلیمان کا حصہ ہیں اور سینیٹ کی کاروائی بہت اہم ہے اوردونوں ایوان بہت اہم ہیں بجٹ اجلاس ہیں ان کی موجودگی ضروری ہے سینیٹ میں چڑیا گھر کے ہاتھی کے ذکر پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھاگیا ، چیئرمین میا ں رضا ربانی نے کہا کہ ہا تھی کا ساتھی لانے سے ہا تھی مزید جارح ہو سکتا ہے ،معاملہ کمیٹی کے پاس ہے اور دیکھا جائے کہ آیا اس ہاتھی کو سری لنکا بجھوا کر نیا ہاتھی لایا جائے سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ ہاتھی کوپہلے نفسیاتی ٹریٹمنٹ دی جائے جمعہ کو ایوان بالا میں سینیٹر نزہت صادق نے ایوان کو خوشخبری سنا تے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کا ہاتھی زنجیروں سے آزاد ہوچکا ہے ،اب اسے کھانا اور چھت بھی مل گئی ہے اور اس کے ساتھی کا بھی بندوبست کیا جا رہا ہے پارلیمنٹ میں ارکان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں نہیں بڑھ سکتیں تو جرنیلوں ،سول و فوجی بیوروکریسی اور ججز کی تنخواہیں بھی ہمارے برابر کی جائیںکے قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے کہا ہے کہ سینیٹ سے موصول ہونے والی 139 میں سے 86 سفارشات کو کلی یا جزوی طور پر منظور کرلیا گیا ہے‘ سرکاری ملازمین کو 2015-16ء میں دیا جانے والا 7.5 فیصد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جارہا ہے اس طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 3 ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم ہونگے‘ تاہم وہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں کے مسئلہ پر ارکان سے وعدہ فردا کر دیا اور کہا کہ وزیراعظم کی وطن واپسی پر ان سے بات کرکے اس پر فیصلہ کیا جائے گا‘ ۔ سینیٹ سے 139 سفارشات موصول ہوئیں جن میں 34 مکمل‘ 30 اصولی اور 22 تجاویز کو جزوی طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔ 53 پر فوری عمل ممکن نہیں۔،ایوان بالا کی 62 فیصد سفارشات منظور کی گئی ہیں،قائد حزب اختلاف کی جانب سے میثاق معیشت پر اتفاق پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ 2008ء میں افراط زر 25 فیصد تھا۔ 2013ء تک اوسطاً 12 فیصد رہا۔ اب تین فیصد سے کم اور قیمتوں میں استحکام ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے دباؤ پر غیرملکی ٹرسٹ سے متعلق انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم سے دستبرار ہوگئے ترمیم کے تحت پاکستانیوں کے غیرملکی اثاثوں کی ایف بی آر کے پاس معلومات کی موجودگی قانونی تقاضا بن جاتا اپوزیشن نے ترمیم کو بلواسطہ طور پر آف شور کمپنیوں سے متعلق قراردے دیا تھا یہ بات خاص طور نوٹ کی گئی حکومتی ارکان نے وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران ڈیسک بجانے میں کنجوسی سے کام لیا ۔ایوان بالا کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی 22جون 2016کو ملتوی ہونے کا امکان ہے ۔