سالگرہ پرشہید بینظیر کی روح کواپنے قاتلوں کی تلاش
آج نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے جس کونے میں بھی جیالے موجود ہیںوہ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی جسے شہزادی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کی ایک مرتبہ پھر دھوم دھام اور جوش و خروش سے سالگرہ منارہے ہیں۔شہید بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر، پاکستان کی تقدیر اورپاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تھیں۔وہ دوبارمملکت خدادپاکستان کی وزیر اعظم رہیں۔ آج 21 جون کوان کی سالگرہ پر سیمینارز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جیالے شہید بی بی کی سالگرہ کے موقع پر غریب اور مستحق مریضوں کیلئے اپنے خون کے عطیات دینگے۔ تمام ضلعی سیکرٹریٹ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کا کیک کاٹنے کے علاوہ افطار ڈنرز دیئے جائینگے۔محترمہ کی شخصیت کے شایانِ شان انکی سالگرہ منانے کا یہی طریقہ ہے جو جیالوں نے ہمیشہ اختیار کیا۔بھٹو خاندان کے شہیدوں کی برسی ہویاسالگرہ ہو جیالوں کے جذبات امڈے چلے آتے ہیں۔ جیالے یہی کرسکتے ہیں۔آج سالگرہ کے موقع پر بے نظیر کی روح پارٹی کے لیڈروں،جیالوں اور کارکنوں کو دیوانہ وارجھومتے دیکھ کے سوال تو کرتی ہوگی کہ میرے قاتلوں کو اب تک کیوں تلاش نہیں کیا گیا اور انکو کیوں منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا؟شہید بے نظیر کی روح کو تو شاید اپنے قاتلوں اور قتل کے منصوبہ سازوں کا علم ہواور وہ یہ بھی جانتی ہو کہ انکے خون کا کس کس نے اور کس قیمت پر سودا کیا۔شہید بی بی کے ساتھ نصیبوں نے اس وقت کھیلنا شروع کیا جب انکی والدہ اور خالہ نے مارشل لا ء حکومت کا دبائو کم کرنے کیلئے فوری طور پر شادی کا منصوبہ بنایا۔ گذشتہ روز ہوائی سفر کے دوران میرا نواب شاہ کے ایک رہائشی سے مکالمہ ہوا۔ اس وقت یونین کونسل کا چیئرمین اسد اللہ شاہ تھا۔بعدمیں یہی اسد اللہ ایم پی اے بن کر کراچی منتقل ہو گیا تو اس نے اپنے ساتھ اپنے منشی حاکم علی زرداری کو بھی لے لیا۔ جہاں حاکم علی زرداری کی ملاقات بمبینو سینما کی مالکن جو کہ ایک بیوہ تھی سے ہوئی اور پھر دونوں نے شادی کر لی۔ اس طرح نوجوان آصف علی اور حاکم علی زرداری اسی سینما کی ٹکٹیں بلیک کرتے دیکھے گئے۔ پیسہ آ جانے کے بعد حاکم علی زرداری نے بیٹے کو پٹارو کالج میں پڑھنے کیلئے بھیج دیا جہاں وہ متعدد بار فیل ہونے کے باوجود گریجوایشن نہ کر سکے۔ میرے لئے حیران کن بلاول بھٹو کی مشرف کے پاکستان سے چلے جانے کے بعدکی ایک جلسہ عام کی وہ تقریر ہے جس میں وہ پوری قوت گویائی مجتمع کرکے کہہ رہے تھے کہ ’’عوام پوچھتے ہیں 2 بار ملک کا آئین توڑنے والا اور شہید بے نظیر کا قاتل ملک سے باہر کیسے گیا؟میری ماں اور سابق وزیراعظم کو عوام کے سامنے کیوں مارا گیا۔ میاں صاحب !فوج کے غدار کو کیسے باہر بھیج دیا گیا‘‘۔یہ وہی’’غدار‘‘ ہے جس سے این آر او کرکے بلاول کے والد محترم نے اقتدار حاصل کیا۔ انہوں نے ہی ان کو ایوان صدر سے گارڈ آف آنر دیکر ’’غداراور قاتل‘‘ رخصت کیا اور پاکستان سے چلے جانے کی اجازت بھی دیدی۔پیپلز پارٹی پانچ سال نہیں ساڑھے پانچ سال اقتدار میں رہی،زرداری صاحب پارٹی حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد بھی چھ ماہ تک صدر رہے۔اس دوران بے نظیر بھٹو کے قتل کی سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوم متحدہ کی ٹیم نے بھی تحقیقات کی۔ان دونوں کا دائرہ کار محدود کردیا گیاتھا۔یہ ٹیمیں قتل کی سازش کا کھوج لگا سکیں نہ قاتلوں کی نشاندہی کرسکیں۔شاید اس سے محترمہ کے وارثوں کو کوئی دلچسپی بھی نہیں تھی۔اُن دنوںآصف علی زرداری نے قاتلوں کو یہ کہہ کر گولڈن ہینڈ شیک دیدیا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔بلاول مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل کہہ رہے جبکہ زرداری صاحب نے بیت اللہ محسود کو شہید بی بی کا قاتل قرار دیا تھا۔محترمہ نے جن لوگوں کو اپنے قتل کی صورت میں ملزم ٹھہرایا تھا ان میں چودھری پرویز الٰہی کا نام بھی شامل تھاجن کو پی پی پی کی حکومت کے دوران ڈپٹی پرائم منسٹر بنا کر شہید بی بی کے قتل کیس پر مٹی ڈال کر اسے خاک میں ملا دیا گیا۔مشرف کی اصل دشمن بے نظیر نہیں میاں نواز شریف تھے جن کی کینہ پروری مشہورہے۔وہ بھی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔مشرف نے کچھ کرنا ہوتا تو پہلا ٹارگٹ میاں نواز شریف ہوتے۔محترمہ بے نظیر بھٹو تیسری بار پاکستان کی وزیراعظم بننے جا رہی تھیں جسکے واضح امکانات نظر آ رہے تھے۔ وہ اقتدار میں آتیں تو انکے مقاصد کیا ہوتے، وہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کیلئے کیاکرتیں انکی پلاننگ سے میں پوری طرح آگاہ تھا۔ کیونکہ میں نے انکے ساتھ بیرونِ ممالک انکے ساتھ سفر کیا۔ اقوام متحدہ، وائٹ ہائوس اور پینٹاگان کے دوروں کے دوران میں انکے ساتھ تھا بلکہ متعدد دورے میں نے ارینج کرائے تھے۔ احتجاجی مہم کے دوران میں انکے ساتھ ہوتا۔ پارٹی لیڈروں کے اجلاس میں بھی شریک رہتا تھا۔ وہ خارجہ معاملات، اندرونی مسائل کے حوالے سے ایک کرسٹل کلیئر وژن رکھتی تھیں جس پراقتدار میں آ کر وہ عمل پیرا ہونے کا عزم کیے ہوئے تھیں۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے ان کی شہادت پر ہمدردی کا ووٹ بھی پیپلزپارٹی کو ملا اور اس میں بھی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی پنجاب میں اقتدار حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی کیونکہ میاں نوازشریف الیکشنوں میں خود حصہ نہیں لے رہے تھے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد وصیت ِنوٹنکی کے بل بوتے پر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی پارٹی کی وراثت اپنے اور اپنے بیٹے کے نام کر لی۔
زرداری صاحب کی ٹیم کے مقاصد اقتدار میں آتے ہی نمایاں ہونے لگے تھے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا زمانے نے دیکھا، توقیر صادق اربوں اڑا لے گیا۔ ڈاکٹر عاصم نے کھربوں روپے خوردبرد کر لیے۔حامد سعید کاظمی وزیر حج ان دنوں جیل گئے اب ان کو ان کے ساتھیوں کو کروڑوں کا جرمانہ کیا اور مجموعی طور پر 70سال قید سنائی گئی۔ 2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کا مردہ بے کفن پڑا تھا۔ بے نظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو وہ اقتدار میں آ کر اپنی پلاننگ پر عمل کرکے ملک کا نقشہ بدل دیتیں۔ اچھی شہرت کے حامل افراد اور ہر شعبے کے ماہرین کی پارٹی میں کمی نہیں ہے۔ وہ ان کو ساتھ لے کر قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دینے کا عزم کیے ہوئے تھیں۔ بعید نہیں وہ پاکستان کو خارجہ اور داخلہ محاذ میں اتنا آگے لے جاتیں کہ آج بھی پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی مگر اب اگلی کئی دہائیوں تک پیپلزپارٹی زرداری گروپ کا اقتدار میں آنے کا امکان نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہم لوگوں کیلئے ناقابل برداشت صدمہ تھا اس جیسا ہی صدمہ پارٹی کی تباہ ہوتی ساکھ کو دیکھ کر ہو رہا ہے۔